لو جی! اب تو ٹرمپ جیت ہی گئے!

  لو جی! اب تو ٹرمپ جیت ہی گئے!
  لو جی! اب تو ٹرمپ جیت ہی گئے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

انسان سوچتا کچھ ہے اور ہوتا اور ہی کچھ ہے، خیال تھا کہ اب سیاست اور دوسرے مسائل سے ہٹ کر عوامی دُکھوں کا ذکر کروں گا، جو کم ہونے کی بجائے ہر روز بڑھتے چلے جاتے ہیں، اداروں کا ذکرہوتا ہے،اچھی خبریں آتی ہیں، پھر نظر لگ جاتی ہے، حکمران پُر اُمید ہیں کہ حالات بہتر ہو رہے اور مزید ہو جائیں گے، لیکن عوام مایوس ہیں  کہ ان کا واسطہ جن اداروں یا محکموں سے ہے وہ ان سے انسانی سلوک ہی نہیں کرتے،چہ جائیکہ ان کے مسائل پر  توجہ دے کر حل کریں۔ریلوے،پی آئی اے،سٹیل مل اور ایسے کتنے ہی ادارے ہیں،جو خود غرضی،نااہلی اور کام چوری کی وجہ سے ڈوب چکے ہیں اور فائدہ کی بجائے نقصان دے رہے ہیں،خیال تو یہ ہے کہ کبھی کبھی کسی ایک ادارے کے حوالے سے اپنے تجربات اور خیالات کو شیئر کروں، لیکن یہ موقع نہیں ملتا، کیونکہ کوئی نیا مسئلہ آ کھڑا ہوتا ہے خیال تھاکہ آج بھی ایوان زیریں اور ایوانِ بالا کی کارروائی، قوانین، ترامیم اور رویوں پر بات کروں گا، لیکن رات گئے امریکہ سے ٹرمپ کے صدارتی الیکشن جیتنے کی خبر موصول ہو گئی اور وہ277 الیکٹورل ووٹ لے کر دوسری بار خود صدر منتخب ہو گئے اور یوں 47ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے،ان کی مخالف ڈیمو کریٹ امیدوار کملا ہیرس 226 الیکٹورل ووٹ حاصل کر سکی ہیں۔

توقع کے مطابق دنیا بھر میں اس الیکشن کی طرف توجہ کی گئی، دوست، دشمن، مظلوم اور ظالم سبھی نتیجے کے انتظار میں تھے ٹرمپ کی اس کامیابی پر بڑے بڑے دانشور اور ماہر عالمی امور تبصرے شروع کر چکے ہیں۔ لائیو ٹرانسمیشن کے ذریعے ہمارے بھائی بھی ساتھ ساتھ چل رہے تھے اور ان کے تجزیے بھی غور کے مستحق ہیں،جبکہ ہمارے ملک کے اندر ”مظلوم“ یوتھیئے خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں کہ ان کو ٹرمپ سے امیدیں وابستہ  ہیں اور امریکہ میں موجود مرشد کے مرید تو تن من دھن سے اس کامیابی کے لئے سر توڑ کوشش کر رہے تھے اور اب وہ لڈھیاں ڈال رہے ہیں کہ جلد ہی ٹرمپ کی طرف سے بھیجا گیا جہاز یا ہیلی کاپٹر مرشد کو لے کر ایوان وزیراعظم میں لینڈ کر جائے گا اور بقول ایک ”مستقل دانشور“ پھر  واشنگٹن سے ایک  فون راولپنڈی کی لائن پر آئے گا اور کانپیں ٹانگ جائیں گی جس کے بعد دروازے کھل جائیں گے۔

یہ سب اپنی جگہ،میں نے تو عرض کی تھی کہ صدارتی الیکشن کوئی بھی جیتے ہمیں یا مسلم دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑے  گا کہ ہم کون سا ”امریکی غلامی“ سے آزادی کا نعرہ لے کر انقلاب لا رہے ہیں،یہ تو انہی کو سوچنا ہو گا جو اب بھی یہ نعرہ لگا رہے ہیں لیکن امریکی ذکر بھول کر اب ادھر ہی سے آس لگائے بیٹھے ہیں، میرے خیال میں ماضی شاہد ہے کہ ہمیشہ حکومتیں،حکومتوں سے ہی معاملہ رکھتی ہیں اور موجودہ حکومت کون سی آزادی کا نعرہ لگا رہی یا تکلیف دے رہی ہے یہ تو ایران سے گیس کے لئے پائپ لائن کی تکمیل نہیں کر  رہے۔بہرحال یہ تو بعد کی بات ہے، اب تو دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ جو نعرے لگاکر ووٹ حاصل کر چکے، ان پرکتنا اور کیسے عمل کرتے ہیں۔

مقابلہ تو سخت تھا لیکن ڈیمو کریٹ کی نسبت ٹرمپ زیادہ چالاک ثابت ہوئے اور آخری وقت میں انہوں نے کنارے پر بیٹھے ووٹروں کو بھی متوجہ کر لیا، گو اسرائیل کے حوالے سے وہ بھی بائیڈن سے مختلف نہیں ہیں،لیکن وہ بار بار یہ کہتے رہے کہ وہ صدر ہوتے تو یہ جنگ نہ ہوتی اور اب  منتخب ہو گئے تو حلف کے بعد اندازہ ہو گا کہ وہ کیا کرتے ہیں کہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیل کو اپنے مقاصد پورے کر کے غزہ سے نکل آنا چاہئے اور مقاصد کی تکمیل کا اعلان تو نیتن یاہو ہی کرے گا۔البتہ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں عورت،مرد اور کالے گورے، مقامی اور غیر قانونی آنے والوں کا مسئلہ خوب اجاگر ہوا اور ٹرمپ نے بڑی خوبصورتی سے امریکی امرا کو اپنی طرف مائل کیا۔ آخری وقت میں انہوں نے جنگ مخالف حضرات  و خواتین کے لئے ٹرمپ کارڈ کھیلا،انہوں نے کہا بائیڈن اور کملا  ہیرس کی کامیابی کا مطلب مشرق وسطیٰ اور دیگر  پہنچ کے علاقوں میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل ہو گا اور وہ مشرق وسطیٰ سمیت دنیا میں امن قائم کرائیں گے۔ یوں فلسطین کے حامی رائے دہندگان نے غالباً نئی توقعات باندھ لیں کہ اسرائیل کا تمام تر ظلم ڈیمو کریٹس کے دور میں ہوا اور مکمل امریکی حمایت سے ہوا، چنانچہ یہ ووٹر پہلے ہی ذہنی طور پر بائیڈن انتظامیہ سے بددل تھے کہ ٹرمپ نے اسے اپنے انداز میں ہوا دیے کر اپنی راہ ہموار کی۔

بہرحال انتخاب ہو گیا، ٹرمپ جیت گئے، امریکی انتخابات کا یہ بھی عمل ہے کہ ووٹنگ مکمل ہوتے ہی نتائج بھی آ گئے اور کسی کو اعتراض بھی نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی بڑا ہنگامہ سننے میں آیا ہے، البتہ ٹرمپ کے حامی جشن ضرور منا رہے ہیں۔

جب تک ہم اپنے ملک کے حوالے سے بات نہ کریں، قارئین متوجہ نہیں ہوں گے۔یہ درست کہ خان صاحب کے حامی حضرات نے ٹرمپ کی مہم میں حصہ لیا اور ہمارے بڑے ”عالمی دانشور“ بھی پُراُمید ہیں لیکن میری گذارش یہ ہے کہ امریکہ کی سرکاری پالیسیاں ایسی ہوتی ہیں جن پر صدر یا انتظامیہ کے اثرات جلد نہیں ہوتے،بلکہ ڈیپ سٹیٹ کی پالیسی اور ایوانوں کو بھی پیش ِ نظر رکھنا ہوتا ہے، اس کے علاوہ یہ تو ممکن ہے کہ کوئی انسانی حقوق کے حوالے سے بات کرے، لیکن یہ ممکن نہیں کہ ایک اشارے پر کوئی جیل سے باہر آ جائے۔البتہ پروپیگنڈہ مشینری پہلے سے سرگرم ہے وہ اور تیز کر دی جائے گی اور ادارتی افراد کے ذہنوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی جائے گی،لیکن جو بھی بات کسی نے کرنی ہے وہ برسر اقتدار اور مقتدر حضرات ہی سے کرے گا اور یہاں ہر دو ایک دوسرے کے لازم و ملزوم بن گئے ہیں اس لئے اگر واقعی ”محبت،محبت،محبت“ عود کر آئے تو پھر مختلف چینلوں کے ذریعے ”دوست“ کی مدد کی جا سکتی ہے اِس لئے اب تو تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھنے والی بات ہے۔

پاکستان کی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے احباب کے لئے میری ایک تجویز ہے کہ وہ دورِ عباسیہ میں خلیفہ معتصم اور ان کے والد گرامی کے دور میں آذر بائیجان کے بابک خوری کے حوالے سے تاریخ کا مطالعہ کریں،اس سے بہتوں کا بھلا ہو گا!

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -