ماہ ِربیع الاول کی فضیلت اوراس کے تقاضے

ماہ ِربیع الاول کی فضیلت اوراس کے تقاضے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پیرحافظ محمد ابراہیم نقشبندی
ربیع الاول اسلامی سال کا تیسرا قمری مہینہ ہے۔”ربیع“عربی میں موسمِ بہار کو کہا جاتا ہے، اور اوّل کے معنی ہیں: پہلا، تو ربیع الاول کے معنی ہوئے: پہلا موسمِ بہار۔ موسمِ بہار دو زمانوں پر مشتمل ہوتا ہے: ایک تو اس کا ابتدائی زمانہ،جس میں کلیاں اور پُھول کھلتے ہیں، اور دوسرا وہ زمانہ جب پھل پک جاتے ہیں، پہلے زمانے کو ربیع الاوّل یعنی پہلا موسمِ بہار، جبکہ دوسرے زمانے کو ربیع الثانی یعنی دوسرا موسمِ بہار کہا جاتا ہے۔جب ان مہینوں کے یہ نام رکھے جارہے تھے تو اس وقت بہار کے یہی موسم تھے، اورپھر بعد میں ان مہینوں کے یہی نام پڑگئے۔
اس مہینے میں سرورِ دو عالم حضور اقدس جناب محمد رسول اللہ ﷺ دنیا میں تشریف لائے اور یہ مقام کسی اور مہینے کو حاصل نہیں، اسی لیے جب آپ ﷺ سے پیر کے دن روزے کے بارے میں پوچھاگیا،تو آپ ﷺ نے اس کی فضیلت کی ایک وجہ یہ بیان فرمائی کہ اس دن میں پیدا ہوا، جب پیر کے دن روزہ کو حضورﷺ کی ولادت کی وجہ سے فضیلت حاصل ہے، تو ماہِ ربیع الاوّل کوبھی آپ ﷺ کی ولادت کا مہینہ ہونے کی خاص حیثیت کے اعتبارسے سال بھر کے تمام مہینوں پر فضیلت وفوقیت حاصل ہے۔
قرآن وسنت کی روشنی میں اس مہینہ سے متعلق مخصوص اَعمال کا کوئی ثبوت نہیں، اس لیے اس ماہ سے متعلق اپنی طرف سے اعمال وعبادات بیان کرنا شریعت میں زیادتی ہے جو کہ ناجائز ہے۔حضوراکرم ﷺ کا ذکر مبارک ایک اعلی ترین عبادت ہے، بلکہ روحِ ایمان ہے۔ آپ کی ولادت، آپ کا بچپن، آپ کاشباب، آپ کی بعثت، آپ کی دعوت، آپ کا جہاد،آپ کی عبادت ونماز، آپ کے اخلاق، آپ کی صورت وسیرت، آپ کازہدو تقوی، آپ کی صلح وجنگ، خفگی و غصہ، رحمت و شفقت، تبسم و مسکراہٹ، آپ کا اٹھنابیٹھنا، چلنا پھرنا، سونا جاگنا، الغرض آپ کی ایک ایک ادا اور ایک ایک حرکت و سکون امت کے لیے اسوہئ حسنہ اور اکسیر ہدایت ہے اور اس کا سیکھنا سکھانا، اس کا مذاکرہ کرنا اور دعوت دینا امت کا فرض ہے۔
آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کو بیان کرنے کے دو طریقے ہیں:پہلاطریقہ آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے ایک ایک نقشے کو اپنی زندگی کے ظاہر و باطن پر اس طرح آویزاں کیا جائے کہ آپ ﷺ کے ہر امتی کی صورت وسیرت، چال ڈھال، رفتارو گفتار، اخلاق وکردار آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کی تصویر بن جائے اور دیکھنے والے کو نظرآئے کہ یہ محمدرسول اللہﷺ کا غلام ہے۔دوسراطریقہ:جہاں بھی موقع ملے آپﷺ کے ذکر ِخیر سے ہرمجلس و محفل کو معطر کیا جائے۔ آپ ﷺ کے فضائل و کمالات اور آپﷺ کے بابرکت اعمال اور طریقوں کا تذکرہ کیاجائے۔سلف صالحین، صحابہ کرام ؓ و تابعین ؒاور ائمہ کرام ؒان دونوں طریقوں پر عمل کرتے تھے۔ وہ آپ ﷺ کی ایک ایک سنت کو اپنے عمل سے زندہ کرتے تھے اور ہر محفل و مجلس میں بھی آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کا تذکرہ کرتے تھے۔نبی کریمﷺ کا ذکر مبارک انسان کی عظیم ترین سعادت ہے اور اس روئے زمین پر کسی بھی ہستی کا تذکرہ اتنا باعث اجر و ثواب اتنا باعث خیر و برکت نہیں ہوسکتا جتنا سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کا تذکرہ ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ایک غلطی یہ ہے کہ ہم نے سرکارِ دو عالمﷺ کا ذکر مبارک صرف ایک مہینہ یعنی ربیع الاوّل کے ساتھ خاص کردیا ہے اور ربیع الاوّل کے بھی صرف ایک دن اور ایک دن میں بھی صرف چند گھنٹے نبی کریم ﷺ کا ذکر کرکے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے نبی کریمﷺ کاحق ادا کردیا ہے، یہ حضورِ اقدس ﷺ کی سیرتِ طیبہ کے ساتھ اتنا بڑا ظلم ہے کہ اس سے بڑا ظلم سیرتِ طیبہ کے ساتھ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔اسلام رسمی مظاہروں کا دین نہیں ہے:بات درحقیقت یہ تھی کہ رسمی مظاہرہ کرنا صحابہ کرام ؓکی عادت نہ تھی وہ اس کی روح کو اپنائے ہوئے تھے۔ حضورِ اقدس ﷺ اس دنیا میں کیوں تشریف لائے تھے؟ آپ ﷺ کا پیغام کیا تھا؟ آپﷺ کی کیا تعلیم تھی؟ آپ ﷺ دنیا میں سے کیا چاہتے تھے؟ اس کام کیلئے انہوں نے اپنی ساری زندگی کو وقف کردیا۔
خلاصہ کلام:اصل ربیع الاوّل اس کا ہے، جو رات دن ہر وقت حضور ﷺ کو یاد رکھتا ہے، سال میں ایک مہینے کے لیے نہیں، ایک دن کے لیے نہیں، بارہ ربیع الاوّل کے لیے نہیں، جس کی ہر سانس بارہ ربیع الاوّل ہے، جو اللہ کے نبی کی سنت پر زندہ رہتا ہے، ہر سانس میں سوچتاہے اور اہلِ علم سے پوچھتا ہے کہ یہ خوشی کیسے مناؤں؟ شادی کیسے ہو؟ غمی کیسے ہو؟ ساری سنتیں پوچھتاہے اور سنت پوچھ کر سنت کے مطابق خوشی اور غمی کی تقریبات کرتاہے،تو جس کی ہر سانس سرورِ عالم ﷺ کی سنت پر فد ا ہو، اس کی ہر سانس بارہ ربیع الاوّل ہے۔ جو شخص آپ کی سنت پرعمل کررہاہے اس کا روزانہ بارہ ربیع الاوّل ہے، کیونکہ آپ کے دنیا میں تشریف لانے کا مقصد یہی ہے کہ امت آپ کے نقشِ قدم کی اتباع کرے، کیونکہ؎
نقشِ قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے
مخلوقِ خدا کی خدمت:
محتاجوں،غریبوں، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد، معاونت، حاجت روائی اور دلجوئی کرنا دین اسلام کا بنیادی درس ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کے کام میں (مدد کرتا)رہتا ہے جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کے کام میں مدد کرتا رہتا ہے۔ 
انسانیت کی مدد اور ان کے کام آنا نبی کریم ﷺ کے اخلاق کی روشن تعلیمات میں سے ہے۔ اسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہمارا ادارہ الکہف ایجوکیشنل ٹرسٹ سرگرم ہے۔ پاکستان میں حالیہ تباہ کن سیلاب کے متاثرین کے لیے ہمارے ادارے نے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کیلئے منظم حکمت عملی ترتیب دے کر کام کا آغاز کیا۔الکہف ٹرسٹ کی جانب سے ملک کے چاروں صوبوں میں 60 سے زائدعلاقوں میں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔
الکہف کی طرف سے سیلاب متاثرین کو اس وقت تک 7 ہزار راشن پیک اور 2 ہزار خیمے دیے جا چکے ہیں،12 میڈیکل کیمپس لگائے گئے جن میں 8 ہزار متاثرین کا علاج معالجہ ہوا ہے۔سینکڑوں خاندانوں کو پکا پکایا راشن پر پہنچایا جا رہا ہے۔ اس پروگرام کو منظم انداز میں انجام دینے کے لیے ڈیرہ غازی خان، تونسہ شریف، سکھر، لاڑکانہ اور کوہستان میں 5 ریلیف سینٹرز قائم کیے گئے ہیں۔ڈیرہ غازی خان اور تونسہ میں صاف پانی کی فراہمی کیلئے آر او پلانٹ لگا دیا گیا ہے جبکہ دیگر علاقوں کے لیے ورکنگ جاری ہے۔ اب تک سیلاب متاثرین کو 6 کروڑ روپے سے زائد رقم اور ساز و سامان دیا جا چکا ہے۔سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے”الکہف تعمیرِ پاکستان“ پروگرام کے تحت 300 گھروں کی تعمیر و مرمت کا کام جاری ہے جن میں 5 گھروں کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ اپنے خصوصی فضل و کرم سے اس منصوبے کو پایہئ تکمیل تک پہنچائے۔ آمین

مزید :

ایڈیشن 1 -رائے -