قصہ نصف صدی کا۔۔۔۔۔
زندگی میں اگر کبھی انسان پر کچھ ایسا وقت آیا ہو اور کچھ ایسے واقعات گزرے ہوں، جنہیں وہ اپنی یادداشت میں ”تازہ“ نہیں کرنا چاہتا (یعنی یاد نہیں کرنا چاہتا) لیکن بدقسمتی سے وہی واقعات اگر پھر دوبارہ سامنے آ جائیں تو پھر انسان یہ سوچتا ہے کہ ہم نے ماضی سے کوئی سبق کیوں نہیں سیکھا، کیوں ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے کھڑے تھے۔ آج جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں، جو نظر آ رہا ہے،جو چھپایا جارہا ہے اور پھر ”دکھلایا“ جا رہا ہے، جو کچھ بتایا اور ”کہلوایا“ جا رہا ہے اسے سن کر تو ایسا لگتا ہے کہ یہ تو تقریبا نصف صدی پرانا وہی قصہ ہے۔ آج پھر 1977ء کی یادیں تازہ ہو رہی ہیں اور میں آپ کے ساتھ انہیں ”شیئر“ کر رہا ہوں۔ وہ وقت کہ جب میری عمر صرف 18سال تھی، وہ وقت کہ جب نہ سوچنے کی عمر تھی اور نہ سمجھنے کی۔ آج کل کے بچے یعنی یہ“گوگل نسل“ میری یہ بات نہیں سمجھے گی، کیونکہ میں اُس دور کی بات کر رہا ہوں جب ٹی وی سکرین پر صرف سرکاری ٹی وی، یعنی پی ٹی وی کے پروگرام اور خبرنامہ ہی چلا کرتا تھا اور پاکستانی عوام کو“خبر“ کے لئے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کا خبرنامہ صبح چھ بجے سننا پڑتا تھا،لہٰذا اُس وقت کے 18 سال والوں کا آج کے 18سال والوں سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا،چنانچہ 47 سال پرانی یہ یادیں، جن کے بارے سوچا تھا کہ کبھی زندگی میں یہ وقت دوبارہ نہیں آئے گا، مگر وہ وقت پھر آگیا اور وہ یادیں پھر تازہ ہو رہی ہیں۔ بیحد ڈر لگ رہا ہے خوف آ رہا ہے کہ خدا نخواستہ انجام پھر وہی نہ ہو کہ پھر کوئی 5 جولائی آ جائے کوئی جرنیل کرسی اقتدار سنبھال لے اور گیارہ سال کی طویل ”نحوست زدہ رات“ پھر اس ملک پر چھا جائے۔ شاید نئی نسل کو میرے اس ابتدائیہ کی سمجھ نہ آئی ہو کہ میں کن حالات کی طرف اشارہ کر رہا ہوں، لیکن میرے جیسے“ سٹھیائے“یعنی وہ لوگ جو زندگی کی60،65،70بہاریں دیکھ چکے ہیں سمجھ گئے ہوں گے کہ میرا اشارہ ”نو ستاروں“ (قومی اتحاد) کی اس“مہم جوئی“کی طرف ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کے الیکشن جیتنے کے بعد شروع ہوئی تھی۔ آج بھی پاکستان کی تازہ مہم جوئی 8 فروری کے ”فارم 45۔47“ انتخابات کا شاخسانہ ہے۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں میرے ذاتی خیال میں جو غلط بھی ہو سکتا ہے صرف تین پارٹیاں ایسی ہیں جنہوں نے اپنے ”فالوور“ پیدا کئے۔ پہلا نام یقینا مسلم لیگ کا ہے لیکن وہ قائداعظمؒ اور لیاقت علی خان کی ”رخصتی“ کے بعد بری طرح تقسیم ہوئی اور مارشل لاؤں کی نظر ہوئی، لہٰذا پاکستان کی پہلی حقیقی ”عوامی پارٹی“ جس کے فالوور سامنے آئے وہ پیپلز پارٹی تھی،ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت، جس کے ورکر جیالے کہلائے۔ بھٹو کے جیالے جو بھٹو کی خاطر اپنا تن من دھن سب کچھ وار سکتے تھے، لیکن بدقسمتی سے یہ جیالا ازم دسمبر 2007ء میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ”دم توڑ“ گیا۔ پیپلز پارٹی بھٹو ازم سے زرداری ازم کی طرف جانے لگی اور آہستہ آہستہ اب صرف سندھ تک محدود نظر آتی ہے، جبکہ دوسری عوامی پارٹی، جس کے فالوور سیاسی میدان میں نکلے وہ مسلم لیگ (نواز) تھی، لیکن یہاں پھر آپ مجھے غلط کہہ سکتے ہیں یہ میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ جو ورکرز یا جو بھی تھے،جو جیالوں کے مقابلے میں متوالے کہلائے۔ تن۔ من۔ دھن وارنے والے نہیں تھے۔ یہ دھن کمانے والے لوگ تھے انہوں نے کبھی اپنے لیڈر پر تن وارا نہ من وارا نہ دھن۔ (جس کی واضح مثال 12اکتوبر1999ء) ہے جب متوالے قائد کو بھول بھال غائب ہوگئے۔ البتہ تیسری عوامی پارٹی جو ان سب میں کم عمر ہے اور جس کی عمر صرف 27 سال ہے۔ وہ تحریک انصاف ہے۔ انصاف کے نام پر بننے والی جماعت جس کے بانی اور قائد ”قیدی نمبر 804 یعنی عمران خان ہیں“۔ جن کا کہنا تھا کہ وہ اس ملک کے عوام کو انصاف دلانے کے لئے میدان میں آئے ہیں۔ آج یہ موازنہ کرنے کی ضرورت اس لئے پڑی کہ قیدی نمبر 804 کے کھلاڑی، یعنی کپتان کے کھلاڑی آج میدان میں ہیں، بلکہ آج سے کیا تقریبا دو سال سے میدان میں ہیں۔ ان کھلاڑیوں نے صرف گذشتہ دو دن میں وہ کر دیا یا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس نے مجھے ”نو ستاروں یعنی ہل والوں“ کی تحریک نظام مصطفی ؐ یاد تازہ کرا دی۔ معذرت چاہتا ہوں، تحریک نظام مصطفی ؐ سے کسی تحریک کا مقابلہ نہیں ہو سکتا، کیونکہ تحریک نظام مصطفی ؐ کا مقصد (جو مجھ جیسے نوجوانوں کو بتایا گیا تھا) وہ ملک میں ایک ایسا نظام نافذ کرنا تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 14 سو سال پہلے مکہ اور مدینہ میں مسلمانوں کو یعنی ہم جیسے کلمہ گو مسلمانوں کو دیا تھا۔عمران خان کی آج کی تحریک ملک میں آئین قانون انصاف کے لئے ہے۔ آئین ”بچانے“ کے لئے ہے اور اس تحریک نے دو دن میں جوکر دکھایا ہے ایسا لگتا ہے کہ ”کھلاڑی“ کچھ کر کے دکھائیں گے۔
1977ء میں اسی لاہور میں روزانہ نیلا گنبد اور مسلم مسجد (لوہاری گیٹ) سے جلوس نکلا کرتے تھے۔ اس وقت کے ”آئی جی“ کے حکم پر آنسو گیس چلا کرتی تھی۔ مال روڈ پر ایسی فائرنگ بھی دیکھی، جس کے زخمی لاہور ہائیکورٹ کے اندر سے اُٹھا کر وکلاء نے ہسپتال پہنچائے۔اسی مال روڈ پر 9 اپریل 1977ء کو جلوس کے شرکا پر گولیاں چلتے دیکھی گئیں، مسلم مسجد پر آنسو گیس کی بارش، اور پولیس کی جوتوں سمیت چڑھائی بھی دیکھی۔ میکلوڈ روڈ پر رتن سینما کی چھت سے جلوس پر فائرنگ اوراسی فائرنگ کے دوران نوجوانوں کے سینما کو آگ لگانے کے منظر ابھی یقینا لوگ بھولے نہیں ہوں گے۔ اسی سینما سے بمشکل 300 گز دور لاہور ہوٹل چوک میں پیلی بلڈنگ کی تیسری منزل سے جلوس پر مبینہ فائرنگ اور اور پوری بلڈنگ کو آگ لگانے کا منظر بھی ابھی بہت سی یاد داشتوں میں محفوظ ہوگا۔ یہ سب بتانے کا مقصد ڈرانا نہیں ہے، ہم کیوں اسے بھول گئے ہیں؟ خدارا اختلافات کو ”پوائنٹ آف نو ریٹرن“ کی طرف مت لے کر جائیں۔ 5 جولائی اور 12 اکتوبر کی سیاہ تاریخوں سے بچیں۔ 425 دن سے جیل میں بیٹھے قیدی سے بات کریں۔ بات کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ وہ تو جیل میں ہے۔ اس کی بات ماننا یا نہ ماننا آپ کا اختیار ہے۔