پاکستانی ڈاکٹر دنیا بھر میں ’مہنگے و نکمے‘ قراردیدیے گئے
اسلام آباد( مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستانی ڈاکٹروں کو دنیا بھر میں مہنگا اور نکما قراردیدیا گیا ہے ۔ بی بی سی نے ایک تحقیقی رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستانی ڈاکٹروں کا لکھا ہوا کوئی ایک نسخہ بھی بین الاقوامی طبی معیار کے تقاضے پورے نہیں کرتاجبکہ ڈاکٹر مہنگی اور ضرورت سے زیادہ ادویات تجویز کرتے ہیں۔یہ تحقیق ممتاز طبی جریدے پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنس کے حالیہ شمارے میں شائع ہوئی ہے۔ بی بی سی کے مطابق اگرچہ اس تحقیق میں پشاور کے چھ بڑے ہسپتالوں اور میڈیکل سٹوروں کا جائزہ لیا گیا لیکن اس کے نتائج کو پورے ملک پر منطبق کیا جا سکتا ہے۔تحقیق سے معلوم ہوا کہ طبی قواعد کے برعکس جنرل پریکٹیشنر (جی پی) ڈاکٹر 89 فیصد نسخوں پر اپنا نام نہیں لکھتے، 78 فیصد نسخوں پر مرض کی کوئی تشخیص نہیں لکھی ہوتی جب کہ 58 فیصد نسخے اتنے بدخط ہوتے ہیں کہ انھیں پڑھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔اور تو اور، تحقیق کے دوران دریافت ہوا کہ 63 فیصد نسخوں پر دوا کی مقدار، جب کہ 55 فیصد پر دوا لینے کا دورانیہ درج نہیں کیا جاتا۔تحقیق کے مرکزی مصنف اور پشاور میڈیکل کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عثمان احمد رضا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ مختلف نسخوں میں یہ مختلف چیزیں مختلف شرح کے ساتھ موجود تھیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی ایک نسخے میں بھی یہ ساری چیزیں اکٹھی موجود نہیں تھیں،کسی ایک ادارے، کسی ایک شخص، یا کسی ایک پروفیشن کو اس کا ذمہ دار ار ٹھہرانا ٹھیک نہیں ہو گا، کیوں کہ یہ بہت سے اداروں کا کردار اور یہ پورے نظام کا مسئلہ ہے، جس میں میڈیکل طلبہ کی تربیت، ڈاکٹروں کی بار بار ازسرِ نو تربیت، انظباطی اداروں کا کردار اور دوسری چیزیں شامل ہیں۔"یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ جلدی اور لاپروائی سے لکھے جانے والا نامکمل نسخہ مریض کے لیے کس قدر تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ ملک میں ایسے میڈیکل سٹوروں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے جہاں کوالیفائیڈ فارماسسٹ موجود ہوتا ہے جو ڈاکٹر کی غلطی پکڑ سکے۔وزارتِ صحت کے خاتمے کے بعد ملک میں ایک سرکاری ادارہ ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی آف پاکستان بنایا گیا ہے۔ اس ادارے کے چیف ایگزیکیٹیو افسر ارشاد خان نے بتایا کہ ان کا ادارہ اس سلسلے میں ڈاکٹروں کی استعدادِ کار بڑھانے کے لیے پروگرام شروع کر رہا ہے ۔انھوں نے میڈیکل کالجوں کے کردار کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ یہ ان کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ڈاکٹروں کو وقتاً فوقتاً ریفریشر کورس کرواتے رہیں۔جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستانی ڈاکٹر فی نسخہ 3.32 ادویات لکھ کر دیتے ہیں، حالانکہ عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق فی نسخہ ادویات کی زیادہ سے زیادہ مناسب تعداد صرف دو ادویات ہونی چاہیے۔اگر اس شرح کا تقابل بنگلہ دیش اور یمن جیسے ترقی پذیر ممالک سے کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہاں فی نسخہ پاکستان سے نصف سے کم ادویات تجویز کی جاتی ہیں۔ارشاد خان نے کہا کہ ’ایک ہی نسخے میں اکثر اوقات غیر ضروری ادویات شامل کر دی جاتی ہیں، جن میں غیر ضروری اینٹی بایوٹک، ملٹی وٹامن، دردکش ادویات وغیرہ لکھ دی جاتی ہیں۔ اس رجحان کو بھی پروفیشنل پہلو سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘ایک بات یہ سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں پائی جانے والی غربت کے باوجود جی پی ڈاکٹروں کی تجویز کردہ ادویات میں سے 90 فیصد مہنگی برانڈڈ ادویات تھیں، حالانکہ ان میں سے اکثر ادویات کے سستی متبادل مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں۔