افلاطون کانظریہ سیاست
مصنف :ملک اشفاق
قسط: 25
افلاطون نے اپنے سیاسی نظریات کو اپنی 3 تصانیف میں دلائل سے بیان کیا ہے۔
اس کی کتاب ریاست (Republic)، قوانین(Laws) اور فلسفی حکمران(Statesman) میں بیان کیا ہے۔
افلاطون جب لوگوں میں بہت مقبول ہو چکا تھاتو اس وقت اس نے ”ریاست“ تحریر کی۔ جس نے باقی کتابوں کی نسبت زیادہ شہرت حاصل کی۔ اپنی اس تصنیف میں اس نے ایک مثالی ریاست کا تصور پیش کیا۔ یہ کتاب صرف سیاست کے موضوع تک محدود نہ تھی بلکہ یہ اخلاقی، نفسیاتی، مذہبی، تعلیمی، تاریخی اور فلسفیانہ نظریات کی حامل تھی جو ایک بہتر نظام زندگی کا عکس پیش کرتی تھی۔ کیونکہ یونان میں اخلاق، فلسفہ، مذہب اور تعلیم کے عملی مجموعے کو علم سیاسیات ہی تصور کیا جاتا تھا، لہٰذا اس کتاب کو سیاسی تصنیف تصور کیا گیا۔
”فلسفی حکمران“ جو”ریاست“ کی نسبت مختصر ہے اور ”ریاست“ کے بعد یہی مشہور تصنیف ہے، افلاطون نے اس میں جمہوری حکومت کی خوبیوں کو اجاگر کیا ہے اور آمریت کی نسبت جمہوری حکومت کو سراہا ہے۔
”قوانین“(Laws) افلاطون نے سراکیوز کے تجربات کی روشنی میں تحریر کی تھی۔ جس میں وہ اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ ناقص معاشرے میں پابندیوں کی ضرورت کیوں لاحق ہوتی ہے اور عملی لحاظ سے بہتر حکومت کسے کہا جاتا ہے۔
ریاست (Republic) میں افلاطون نے اپنے نظریات اور اصولوں کو دلائل اور مثالوں کی روشنی میں واضح کیا ہے اور اس حقیقت کو منکشف کیا ہے کہ ریاست میں بنیادی اصولوں کو اغراض و مقاصد کی بنا پر اخذ کیا جاتا ہے۔ اگر ان اصولوں کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو افلاطون کے نظریات کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔
ریاست سے مراد”سیاسی دستور“ ہے۔ دستور سے مراد ایسا نظام ہے جس سے افراد مل جل کر معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں۔ لیکن ہر انسانی تنظیم سیاسی نہیں ہوتی اور نہ ہر معاشرہ ریاست ہوتا ہے۔”ریاست“ میں افلاطون ریاست کی ماہیت معلوم کرتا ہے اور اس پر بحث کرتا ہے کہ ریاست کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں اور یہی اس کے سیاسی فلسفے کا محور ہے۔
”نیکی ہی اصل اور پائیدار علم ہے“ ریاست کی ابتداءاسی سے ہوتی ہے۔ یعنی اصل سچائی اور نیکی اس دنیا ہی میں ہے اور اسے پایا جا سکتا ہے۔ افلاطون”نیکی“ کو ہی علم کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ کیونکہ ”نیکی کے ذریعے جانا جا سکتا ہے۔“
افلاطون سے پہلے سیاسی مفکرین اور فلسفی اس بارے میں غور و فکر کرتے رہے کہ انسانی مسائل کو حل کرنے میں کیا ہم حقیقی علم تک پہنچ سکتے ہیں؟ یا پھر پرانے نظریات پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ افلاطون کے مطابق ”عقل اور ذہانت میں برتر لوگ ہی اصل سچائی کو پا سکتے ہیں اور انسانی مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔“
افلاطون کے اس فلسفے سے ہم ایک اور اصول اخذ کرتے ہیں کہ دنیا میں ہر انسان صلاحیتوں کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ بعض عقل و فہم کے مالک ہوتے ہیں تو بعض کا بہادری و شجاعت میں کوئی ثانی نہیں ہوتا۔ بعض ہنر اور فن میں یکتا ہوتے ہیں تو بعض ہوشیار و چالاک ہوتے ہیں۔ نیز ہر طرح کے انسان قابلیت اور اعمال کے لحاظ سے ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ لہٰذا بہادر اور شجاع کو سرحدوں کی حفاظت کےلئے مامور کر دیا جانا چاہئے اور عقل فہم میں جس کا کوئی ثانی نہیں ہوتا وہ حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنے کےلئے موزوں ہوتا ہے۔
افلاطون کے نزدیک جمہوریت محض دھوکے اور فریب پر مبنی ہوتی ہے۔ جو اس اصول کو تسلیم کرتی ہے جس کا معاشرے میں کوئی وجود نہیں ہوتا اور ایسے لوگوں کی رائے کو علم کا درجہ دیتی ہے جو جہالت کی دقیق گہرایوں میں ڈوبے ہوتے ہیں۔
افلاطون کے نزدیک حکمرانی ایک فن ہے۔ یہ دوسرے فنون سے مشکل ترین ہے۔ جمہوری نظرئیے کے مطابق ہر شخص دوسروں پر حکومت کر سکتا ہے کیونکہ ہر شخص میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ تمام مشکلات اور معاملات کو حل کر سکے۔ لہٰذا افلاطون کے مطابق جمہوریت مسلسل فتنہ و فساد کا موجب ہے۔
افلاطون جمہوری حکومت کے اس لیے بھی خلاف تھا کیونکہ ایتھنز کی حکومت جمہوری تھی۔ جہاں آئے دن سیاسی بغاوتیں ہوتیں اور حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی تھیں۔
افلاطون مستحکم اور پائیدار حکومت کےلئے نظم و ضبط پر زور دیتا تھا جو تقریباً ایتھنز میں ناپید تھی۔( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔