رمضان المبارک میں راشن کی تقسیم کے علاوہ اور بھی بہت سے کام ہیں جنہیں کار ثواب سمجھا ئے
تحریر :شیخ رکن الدین ندوی نظامی
ماہ رمضان میں ہر طرف راشن کے تھیلے تقسیم ہوتے نظر آتے ہیں۔۔
حالانکہ اور بھی ضروریات ہیں زندگی میں، جن کی طرف توجہ نہیں دی جارہی ۔۔۔
بات دو ٹوک انداز میں کہوں تو یہ سب عمل غالباً دیکھا دیکھی یا فخر یا لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے کے لئے کیا جارہا ہے۔۔۔۔
یقیناً ملت میں فقر و غربت ہے، بیوائیں اور یتیم بھی ہیں اور ایسے مجبور بھی ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔۔۔ لیکن کیا صرف دس بیس پچیس کلو چاول، دو کلو شکر اور آٹا نمک سے ان کی کفالت یا ضرورت پوری کی جاسکتی ہے؟
منظم، منصوبہ بند اور مل جل کر کرنے، نیز ہمہ جہت توجہ کی ضرورت ہے۔مثلاً
بیواؤں، مطلقہ یا خلع یافتہ خواتین کو دوبارہ سہارا اور باعزت زندگی دینے کی جانب توجہ دی جائے۔۔
یتیموں کی باضابطہ کفالت کی جائے، خاندان کا کوئی یتیم بچہ یا بچی ہو تو اس کے لئے اپنے بچوں کے ساتھ تعلیم، تربیت اور کھانے پینے کا انتظام کیا جائے، انہیں احساس تک نہ ہو کہ ان کے سر پر باپ کا سایہ نہیں ہے۔۔۔
نیز خاندان سے باہر کا یتیم ہو تو اس کے ساتھ بھی ایسے ہی کیا جاسکتا ہے یا کم از کم کسی یتیم خانے میں داخلہ دلا کر تعلیم و تربیت اور کھانے کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔۔
اور یتیموں کی کفالت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ بیواؤں سے شادیاں کی جائیں ان کے بچوں کی کفالت و ذمےداری کے ساتھ۔۔۔۔
مقروض کے قرض کی ادائیگی
اور بھی بہت سے کام ہیں جو بآسانی تکمیل پاسکتے ہیں مگر ان کی جانب توجہ دی جائے۔۔ اور انہیں بھی کار ثواب سمجھا جائے۔۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو