گرفتاری تو ہو گئی لیکن فطری ردّ عمل کہاں گیا؟

”یہ عوام کا فطری ردعمل تھا اور اگر دوبارہ ایسا (یعنی مجھے گرفتار کیا) گیا تو یہی ردعمل آئے گا“۔ یہ دھمکی یا تنبیہ عمران خان نے9 مئی کو دی تھی جب انھیں گرفتار کیا گیا تھا اور ان کے حامی ریاست پر چڑھ دوڑے تھے، حالانکہ اس ملک میں وہ کوئی واحد ”سیا ستدان“ نہیں تھے، جنہیں گرفتار کیا گیاتھا لیکن جب نیازی صاحب گرفتار ہوئے تو ملک کے ساتھ وہ کیا گیا جو دشمن بھی سات دہائیوں سے نہ کر سکا تھا اور نہ صرف ملکی وقار اور سلامتی کی ضامن عمارتوں کو جلایا گیا، بلکہ A.I. (آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا مصنوعی ذہانت کی مدد سے جعلی تصاویر اور ویڈیو بھی بنائی گئیں اور ان سے ایک طرف عوامی ہمدردی بٹورنے اور دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر ملک اور اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ۔
ریاست پر چڑھائی کر نا ایک باقاعدہ طے شدہ منصوبے کا حصہ تھا ،اسی چڑھائی میں کچھ لاشیں حاصل کر کے انقلاب لانے کا منصوبہ تھا لیکن جب صورت حال یکسر الٹ گئی اور منصوبے کی گرہیں کھلنے لگیں تو نیازی صاحب نے کہا : یہ عوامی کا فطری اور بے ساختہ ردعمل تھا اور اگر دوبارہ ایسا کیا گیا تو یہی ردعمل دوبارہ بھی آئے گا، لیکن افسوس آج وقت نے نیازی صاحب کی اس بات کو ایک بار پھر غلط ثابت کر دیا کہ دو دن پہلے نیازی صاحب گرفتار تو ہو گئے لیکن وہ ردعمل نہ آیا جسے نیازی صاحب نے ”عوامی ردعمل “ کہا تھا اور جو دوبارہ آنا تھا ۔اس ردعمل کا دوبارہ نہ آنا ہی اس کے فطری نہ ہونے اور پری پلان ہونے کا ثبوت ہے ۔بہرحال توشہ خانہ کیس میں نیازی صاحب کو پانچ سال کے لئے نااہل ،تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی گئی ہے اور جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مزید چھ ماہ سزا بھگتنی ہو گی ۔
اس وقت بہت سی باتیں کر کے نوجوانوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے لیکن دو باتیں تسلسل کے ساتھ کی جا رہی ہیں۔ ایک یہ کہ ایسا جتایا جا رہا ہے کہ نیازی صاحب کے ساتھ یہ ظلم پاکستانی تاریخ میں پہلی بار کیا گیا ہے، حالانکہ اسی ملک میں نواز شریف کو عین ان کے عروج میں انہی کی حکومت میں نہ صرف نااہل کیا گیا،بلکہ گرفتار بھی کیا گیا، لیکن ان کے حامیوں نے ریاست سے بدلہ نہ لیا ۔ نااہل ہونے کے بعد وہ ایک جلوس کی شکل میں اسلام آباد سے روانہ ہوئے ، ہمدردی کا عنصر بھی شامل حال تھا اور حکومت بھی اپنی تھی لیکن کسی ریاستی ادارے کو آگ لگائی گئی ، نہ ہی کسی ادارے کے گیٹ توڑے گئے اور نہ ہی کسی ادارے سے متعلقہ لوگوں کو مارا پیٹا گیا،بلکہ اسی ملک میں نیازی صاحب کے دور میںہی نواز شریف قید ہوا ۔اس کے علاوہ زرداری قید ہوا ، فریال تالپور ، جاوید لطیف ، رانا ثناءاللہ ، شاہد خاقان عباسی بلکہ ایک طویل فہرست ہے نوازشریف اور ان کے ساتھ اور ان کی بیٹی کے ساتھ جو کچھ جیل میں ہوتا رہا وہ ایک الگ کہانی ہے ۔ نیازی صاحب نے ایک رات جیل میں گزاری اور وہ بھی اپنے کرم فرماو¿ں کی مہربانی کی وجہ سے اسلام آباد پولیس کے مہمان خانے میں، کہ تعیش پرستی اور عیاشی بھی رشک کرے ۔ بینظیر کو ایک بے نام گولی کا نشانہ بنایا گیا اور کارکن پاکستان کے خلاف نعرے لگانے لگے تو صدمے میں ڈوبے زرداری نے کارکنوں کو گلوریفائی کرنے کی بجائے ”پاکستان کھپے “ کا نعرہ لگا کر دانش مندی کا ثبوت دیا ۔
دوسری بات یہ کہی جا رہی ہے کہ ہمیں فیر ٹرائل اور دفاع کا حق نہیں دیا گیا ،حالانکہ اس بات میں بھی اتنی ہی صداقت ہے جتنی ”سمندر سے نکلنے والی گیس“ میں صداقت تھی۔جب نواز شریف کا ٹرائل ہو رہا تھا تو اس پر ایک نگران جج ”لگایا“ گیا تھا اور کورٹ کو ایک ماہ میں فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا، لیکن آپ لوگوں نے کورٹ میں حملہ کیا اور جج اتنا مجبور ہوا کہ آپ کی گاڑی میں آکر دستخط کرائے گئے ۔ نواز شریف کی باری جج کہتے تھے کہ ہم کسی کا انتظار نہیں کر سکتے ،اگر وہ وقت پر نہ آیا تو قانون طاقت دکھائے گا لیکن آپ کی باری جج انتظار کرتا رہتا تھا اور وقت پر وقت دیتا چلا جاتا تھا لیکن آپ عدالت نہیں آتے تو قانون کی طاقت کہتی تھی کہ چلیں اگر آج نہیں آ سکے تو کل آ جایئے گا اور آپ اگلے روز بھی نہیں آتے تھے اور یہ تماشا کئی ماہ جاری رہا ۔آپ نے ججوں کے خلاف مہم چلائی اور بارہا جج تبدیل کرایا لیکن نوازشریف کو تو یہ حق بھی نہیں دیا گیا تھا،پھر اسی جج کے خلاف آپ نے سوشل میڈیا کے حوالے سے ایک جعلی ویڈیو بنا کر پروپیگنڈا کیا، لیکن آپ کو کسی نے کچھ نہیں کہا۔ پھر نواز شریف کو اپیل کا حق تک نہیں دیا گیا، لیکن آپ کے پاس ابھی ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کی صورت میںاپیلوں کا حق محفوظ ہے ۔ویہاں بیٹے سے تنخوا نہ لینے کی صورت میں تاحیات نااہلی تھی جبکہ یہاں باقاعدہ بدخیانتی بھی ہے، لیکن پھر بھی سزا صرف پانچ سال کی ہے۔ نواز شریف کا وکیل کہتا تھا کہ کم از کم اتوار کی چھٹی تو دے دیا کروتاکہ میں کیس تیار کر سکوں، لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی تھی، جبکہ یہاں عدالت آپ کو بلاتی تھی لیکن آپ عدالت کی بجائے حق دفاع کو سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر استعمال کرتے تھے اورعدالت سے بھاگتے تھے اور کہیں اور جا کر اس کیس کو ناقابل سماعت قرار دینے کی دہائیاں دیتے تھے۔لہٰذا یوں مت کہیں کہ آپ کو دفاع کا حق نہیں دیا گیا،لیکن دل میں چور تھا جو ہمیشہ کی طرح یہاں بھی آڑے آتا رہا۔