کوئی خوشبو جیسی بات کرو!
اگر کبھی سیاست پر بے تکان بولنے کا مقابلہ ہو تو پاکستانی قوم دنیا بھر میں اول انعام کی مستحق ٹھہرے گی۔ دفتر ہو یا گھر، ٹرین ہو یا بس، ہماری گفتگو موسم سے نہیں بلکہ سیاست سے شروع ہو تی ہے۔ یہ بھی نہیں کہ صبح و شام رائے زنی کا آغاز کسی باقاعدہ خبر سے ہو اور ہم اس کی سچائی کو پرکھنے اور مضر نتائج کو منظر عام پر لانے کی کوشش کریں۔ ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے۔ وگرنہ کسی نہ کسی طرف سے سیاسی ’جگت‘ کی گیند یوں ہی اٹھتے بیٹھتے، سگریٹ سلگاتے یا فائل پر دستخط کرتے ہوئے آپ کی طرف لڑھکا دی جاتی ہے۔ اِس پر آپ سوچنے لگتے ہیں کہ اگر چائے ٹھنڈی تھی یا سبزی کے نرخ تیزی سے اوپر کو جا رہے ہیں تو کہاں لکھا ہے کہ صورتحال کی ذمہ داری چیف جسٹس آف پاکستان پر ڈال دی جائے۔
’بال‘ کے تیور دیکھ کر ممکن ہے کہ آپ بیک ٖفٹ ہو جائیں یا کرکٹ کی عوامی اصطلاح میں ’ویل لیفٹ‘ کر دیں۔ پھر بھی مقامی وکٹ پر بہتر ہوگا کہ سیاسی گفتگو کے ٹیسٹ میچ کو ٹونٹی ٹونٹی سمجھ کر اندھا دھند چھکا لگا دیا جائے۔ اِس سے آگے کا کھیل بیس بال اور ’رگ بی‘ کے ملے جلے اصولوں کے تحت کھیلا جائے گا۔ بنیادی حکمت عملی یہ ہے کہ جہاں داؤ لگا، دھکم پیل کے زور پر مدمقابل کو روندتے ہوئے وکٹری اسٹینڈ پر جھنڈا لہرا دیا۔ چنانچہ کسی محفل میں پڑھے لکھوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑتے دیکھیں تو جان لیں کہ جن صاحب نے بظاہر دلائل کے زور پر سب کو ’تھلے‘ لگا رکھا ہے اُن کی تقریر کی لذت محض پاٹدار آواز کی بدولت ہے۔ ہماری سیاست نے ابھی تک یہی سکھایا ہے کہ سوچنا منع ہے اور جب بولو، اونچا بولو۔
اقبال کو حیرت تھی کہ ’سخن میں سوز الہی کہاں سے آتا ہے‘۔ مجھے حیرانی اِس پر ہے کہ سیاست پر گفتگو کرتے ہوئے اوسط درجے کے پھیپھڑوں میں اتنا زور کہاں سے آ جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو اپنے موقف کی صداقت کا پورا یقین ہو، اس لیے لہجے میں گھن گرج پیدا ہو گئی۔ خیر، اگر سچ یہی ہوتا تو پھر یہ گھن گرج ہم پارلیمنٹ سے لے کر عام جلسوں تک جس تواتر سے سنتے آئے ہیں، اُس سے جمہوری عمل میں پختگی آ جانی چاہئیے تھی۔ یوں اداروں کے درمیان ٹکراؤ جیسے بحران بھی حل ہو جاتے۔ اس کے برعکس جمہوریت کے لیے جس مکالماتی کلچر کی ضرورت تھی اُس کے نام پر سیاستدان ہی نہیں، اکثر ٹی وی میزبان بھی سیاست کی وکٹ پر خود ’بال‘ کرا کر آپ ہی چوکا لگا تے دکھائی دیتے ہیں۔
ماضی ء قریب میں ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ غیر مہذب سیاسی اور سماجی رویوں کا الزام جاگیر دارانہ سوچ پر عائد کرتا رہا ہے۔ ذرا اور پیچھے جائیں تو ہم اہلِ پنجاب کا طرز عمل اُس جاگیر دارانہ جوڑ توڑ کا شاخسانہ لگے گا جس کا اظہار 1930ء کے عشرے میں علامہ اقبال اور سر سکندر حیات کے اختلاف کی صورت میں ہوا۔ پھر 1946ء کے انتخابات میں کامیابی کے باوجود مسلم لیگی وزارت نہ بنی اور جلد ہی لاہور کے در و دیوار فلم ’رتن‘ کے مشہور نغمے کی اِس پیروڈی سے گونجنے لگے:
جب تم ہی چلے پردیس، لگا کر ٹھیس
گلینسی پیارا، دنیا میں میں کون ہمارا؟
یوں متحدہ پنجاب کی جو سیاسی روایت پاکستان کو ورثے میں ملی، اُس میں جاگیردارانہ تفاخر اور عوامی ایجی ٹیشن کے متضاد رویے با ہم یکجا تھے۔ ساتھ ہی ایک گونہ مسخرہ پن بھی پنجابی مسلمان آبادی کے سیاسی مزاج کا حصہ دکھائی دیا۔ درحقیقت اِس آبادی کا اجتماعی وجود آزادی سے پہلے تعلیم کی روایت، متوسط طبقے کی کاروباری رواداری اور حکمرانی کے براہ راست تجربے سے کم و بیش عاری تھا۔ ہم مانیں یا نہ مانیں، جمہوری مزاج اور حقیقت پسندانہ مکالمے کا آہنگ اپنانے کے راستے میں حکمرانی سے ناواقفیت سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے۔ عالمی جنگ کے دوران یہ نعرہ گونجا کہ ”اٹھارہ روپیے گھِنسان تے سرکار دی نوکری کرساں، تے وت روٹی پانی فری ملسی‘‘ مگر اِس پنجابی نعرے کو آپ حکمرانی کا تجربہ تو نہیں کہہ سکتے۔
ایک کمال یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں جاگیردارانہ ذہن کے لیے آپ کا جاگیردار ہونا شرط نہیں بلکہ جس طرح ہمارے ایک دوست نے کہا تھا ”بات سائز کی نہیں، طبیعت گینڈا ہونی چاہئے“۔ جاگیردارانہ رویہ تو صنعتی پھیلاؤ کی بدولت ہی جدیدتر سوچ میں بدل سکتا ہے۔ پر جس دن تک یہ نہیں ہوتا، ہمیں ہمہ وقت اِس لاہوری ٹیکنالوجی پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں کہ جب چیخ چلا کر دوسرے کو اپنی بات سمجھائی جا سکتی ہے تو پھر آرام سے کیوں بولا جائے۔ آخر کس نے طے کیا تھا کہ کسی حقیقی یا فرضی سچ کو ثابت کرنے کے صرف بڑھک ہی موثر پیرایہء اظہار ہے؟
وطنِ عزیز میں بلند آہنگ ہونے کی ایک مثال جمعہ کی تقریریں بھی ہیں، خا ص طور پہ اُن مساجد میں جہاں خطابت کے دوران بار بار گیئر تبدیل ہونے کا احساس دلایا جاتا ہو۔ مسجد میں اپنائیت کا ماحول، ذرا نیم گرم سا موسم، برآمدہ کے ستون سے آرام دہ ٹیک، اور اب سے چند دن پہلے تک پنکھے کی غوں غوں۔ آپ بھی میری طرح ہلکی کوالٹی کے نمازی ہوں تو اِس عالم میں بس ایک غوطہ سا کھا کر اسی اعلان سے چونکیں گے کہ ”جن حضرات نے سنتیں پڑھنی ہیں پڑھ لیں‘‘۔ مگر ہر جگہ ہمیشہ یہ حال نہیں تھا۔ ہم نے گھن گرج سے بالاتر وہ خطیب بھی دیکھے کہ انہوں نے نرم خو پیرائے میں جو بھی کہا دل پر نقش ہو گیا۔
یو ٹیوب اور ٹِک ٹاک کے شور شرابے سے فرصت ملے تو کبھی سوچیے گا کہ ہم سیاست و معاشرت پر خوامخواہ زور لگا لگا کر کیوں بولتے رہتے ہیں؟ کیا اس لیے کہ ہم نے اُن کاموں کی آس بھی عدلیہ، فوج اور سیا ستدانوں سے لگا رکھی ہے جو خود ہمارے کرنے کے ہیں۔ پیر وارث شاہ نے دھیمے لہجے کے حق میں کہا تھا:
ہولی سہج سبھاؤ دے گل کریے
کدی کڑکیے، بولیے ِ، گجیے ناں
یہ ہدایت سبھی انسانوں اور تمام موسموں کے لیے ہے۔ کیا پتا اِن میں ہماری نئی نسل کے لیے جمہوری مکالمے کا موسم بھی شامل ہو۔