گندم و شوگر پالیسی.... کسانوں کا استحصال

گندم و شوگر پالیسی.... کسانوں کا استحصال

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


حکومت نے شوگر ملوں کو کسانوں کا استحصال کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے، گنا کی امدادی قیمت ہر سال کین کمشنر کے ذریعے مقرر تو حکومت کرتی ہے، لیکن اس میں کسانوں کی بجائے مکمل طور پر مل مالکان کے مفادات و خواہشات کو ہی پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ موجودہ صورت حال سے اس غیر منصفانہ بلکہ ظالمانہ طرز عمل کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ شوگر ملوں نے جان بوجھ کر قدرے تاخیر کے ساتھ کرشنگ سیزن کا آغاز کرتے ہوئے سرکاری آشیر باد سے گنا کی خرید170روپے من پر شروع کی ہے، جو پچھلے سال کی امدادی قیمت تھی۔ استحصالی رویہ کا صرف یہی ثبوت کافی ہے کہ ایک سال کے دوران میں نہ صرف کھاد، تیل کے نرخوں میں خود حکومت کی طرف سے معتدبہ اضافہ کیا جا چکا ہے بلکہ تمام اشیائے ضرورت تعلیم، ادویات، لباس، ٹرانسپورٹ وغیرہ کی قیمتیں گزشتہ سال کے مقابلے میں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
کسان تنظیموں نے گنا کی امدادی قیمت 230روپے من مقرر کرنے کا مطالبہ کیا جو انتہائی معقول بھی ہے اور منصفانہ بھی، لیکن مل مالکان بڑی دیدہ دلیری کےساتھ پچھلے سال کے نرخ میں ایک پیسہ اضافہ کے بھی روادار نہیں ہو رہے، جس پر ہمارے حکمران پُراسرار، بلکہ کہنا چاہئے مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ شوگر ملیں مختلف وجوہات کی بنا پر گنا میں مختلف کٹوتیاں کرتی ہیں، کنڈوں میں گڑ بڑ کی بہت شکایات ہوتی ہیں۔ مزید برآں قیمت کی ادائیگی میں کسانوں کو سال بھر ملوں کے طواف کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ درآں حالانکہ یہ قانون موجود ہے کہ پندرہ دن تک ادائیگی نہ کرنے والی شوگر مل کو بند کیا جا سکتا ہے، مگر حکمرانوں کے چہیتوں کے خلاف یہ قانون شاذ ہی حرکت میں آتا ہے،البتہ کبھی کبھی تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق کسان خود اُٹھ کر ملوں کا گھیراﺅ کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں، تو کچھ شنوائی ہوتی ہے، جس سے مل مالکان کی کاروباری شرافت اور حکومت کی گورننس کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے، کسانوں نے مطالبہ کر رکھا ہے کہ گنا خریدنے کی پرچی کو چیک کا درجہ دیا جائے تاکہ مل مالکان ادائیگی کے قانونی طور پر پابند ہو جائیں، لیکن ابھی تک یہ انتہائی جائز مطالبہ بھی منظور نہیں کیا جا رہا۔
جہاں تک گندم پالیسی کا تعلق ہے تو اسے غیر منصفانہ ہی نہیں غیر دانشمندانہ قرار دیا جانا چاہئے۔ وطن عزیز کی سرزمین کو کبھی ایشیا کا اناج گھر کہلانے کا شرف حاصل تھا، جس میں اب بھی فضل خدا یہ صلاحیت موجود ہے، لیکن حکومت کی زرعی حکمت عملی آڑے آ رہی ہے۔ گزشتہ سال گندم کی امدادی قیمت1200روپے من مقرر کی گئی، پاسکو اور محکمہ خوراک کو خریداری کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ان محکموں کے حکام نے فصل کی کٹائی کے دوران جان بوجھ کر باردانہ کی تقسیم اور خریداری کے عمل میں انتہائی سست روی اختیار کی، کسان مجبور ہو کر کھلی منڈیوں میں1100روپے سے1130روپے من پر فروخت کرتے رہے، لیکن جونہی فصل کسان کے ہاتھوں سے نکل گئی باردانہ کا سیلاب آ گیا، غلہ منڈیوں اور بیوپاریوں کے پاس وافر سرکاری باردانہ پہنچ گیا، جس سے سستے داموں خریدی ہوئی گندم ذخیرہ اندوزوں نے 1200روپے من فروخت کرکے راتوں رات لاکھوں روپے کمائے۔ مزید برآں کچھ عرصے بعد کھلی منڈی میں گندم کا نرخ بڑھتے ہوئے1500سے بھی تجاوز کر گیا ۔
اس وقت پچھلی فصل کے برداشت کے چھ ماہ بعد گندم کا نرخ1600روپے من کا آٹا کا1800روپے من ہو چکا ہے جبکہ بیج کا سرکاری ادارہ پنجاب سیڈ کارپوریشن 1800روپے من کے حساب سے نئی فصل کے لئے بیج فروخت کر رہا ہے اور نجی کمپنیوں نے سرکاری سپلائی میں کمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نرخ 2400 روپے من کر رکھا ہے۔ اندریں حالات کسانوں نے اگلی فصل کے لئے امدادی قیمت 1500روپے من مقرر کرنے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ حکومت کے اپنے فیصلے کے مطابق ہر فصل کی امدادی قیمت وغیرہ کے بارے میں پالیسی کا اعلان اس کی بوائی کے موقع پر کرنا ضروری ہے ، ابھی تک حکومت اس سلسلے میں خاموش ہے، جبکہ ذخیرہ اندوز صارفین کو 1800 روپے من آٹا فروخت کر کے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ حکومت شاید اس وجہ سے جھجک رہی ہے کہ امدادی قیمت میں اضافے سے اس کے خلاف مہنگائی میں اضافہ کی ہاہار کار مچ جائے گی، حالانکہ اگر اسی طرح کاشتکاروں کی حوصلہ شکنی اور ناانصافی کا سلسلہ جاری رہا تو اس کا لازمی نتیجہ فی ایکڑ اور مجموعی ملکی پیدوار میں شدید کمی کی صورت میں نکلے گا، جس سے بھاری زرمبادلہ سے غلہ درآمد کرنے کی مجبوری لاحق ہو گی، جس کا سرکاری خزانہ قطعاً متحمل نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی کی صورت میں بھرپور پیداوار سے نہ صرف سستا اور وافر غلہ میسر ہو گا، بلکہ ہم برآمد کے قابل بھی ہو سکیں گے، جو ہماری کمزور ملکی معیشت کے لئے غیر ملکی زرمبادلہ کی شکل میں بڑا سہارا میسر ہو گا۔ ان میں سے کون سا آپشن اپنانا ہے فیصلہ حکومت اور اس کے ماہرین اقتصادیات کو کرنا ہے۔ ٭

مزید :

کالم -