ماہ رمضان کا اصل پیغام !

ماہ رمضان کا اصل پیغام !
ماہ رمضان کا اصل پیغام !

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

زندگی اللہ کی طرف سے عطا کردہ ایک ایسی نعمت ہے جو صرف ایک بار ملتی ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس نعمت کی حفاظت کے لیے خصوصی احکامات بھی دیئے ہیں۔

قرآنی آیات ، احادیث اور اسوہ حسنہ میں ہمیں جا بجا انسانی جان کی تکریم کی تاکید کی جاتی ہے۔ قرآن کی ایک آیت کا مفہوم ہے کہ "جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی" اسی طرح اگر اللہ کے رسول کی سنت کو دیکھا جائے تو حالت جنگ میں بھی دشمنوں کے مریضوں، زخمیوں اور بوڑھوں سے صلہ رحمی کی تلقین کرتے رہے۔

ایک حدیث کے مطابق اللہ کے نبی نے انسانی جان کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے بھی زیا دہ اہم قرار دیا تو گویا کسی بیمار کا علاج کروانا اور اس کی جان بچانا افضل ترین اعمال میں سے ایک ہے۔ موجودہ دور میں صحت کی سہولتیں انتہائی مہنگی ہو چکی ہیں اگر کسی غریب آدمی کے گھر کوئی بچہ یا بڑا معمولی سی بیماری میں بھی مبتلا ہو جائے تو علاج معالجے کے اخراجات کی وجہ سے پورے ماہ کا بجٹ خراب ہو جاتا ہے۔

یہ تو صرف معمولی اور کم پیچیدہ بیماریوں کی بات ہے، بیماری جتنی پیچیدہ ہو تی ہے، اس کا علاج اتنا ہی مشکل ، طویل اور مہنگا ہوتا جاتا ہے۔ اگر کوئی غریب آدمی کینسر جیسی کسی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہو جائے تو یہ اس شخص اور اس کے پورے خاندان کی بقا کا مسئلہ بن جاتا ہے، کیونکہ کینسر کے ایک مریض کے علاج پر کم از کم خرچہ لاکھوں تک کا ہوتا ہے اور بعض اوقات کینسر کے مریض کے علاج پراس سے بھی زیادہ خرچہ ہو سکتا ہے جس کا انتظام کرنا ایک غریب یا متوسط طبقے کے فرد کے لیے ناممکن ہے۔

موذی امراض میں مبتلا انسان کی جان بچانے کے لیے جہاں درد مند دل چاہیے وہیں جدید ٹیکنالوجی اور وسائل کی دستیابی بھی ضروری ہے ۔ موجودہ دور میں میڈیکل سائنس میں ترقی کی بدولت موذی بیماریوں کے علاج کے لیے جدید ترین مشینیں اور نت نئے طریقے ایجاد ہو رہے ہیں لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ یہ تمام جدید ترین طریقے انتہائی مہنگے ہونے کی وجہ سے علاج عوام کی دسترس سے باہر ہیں۔
پاکستان میں جہاں ہر سال تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں ، کینسر کے علاج کے ادارے اور سہولتیں انتہائی نا کافی ہیں۔ دوسری طرف کینسر کی بڑھتی ہوئی شرح ایک ایسی حقیقت ہے جسے اب بھی اکثر لوگ تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اس کا اندازہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن(ڈبلیو ایچ او)کی اس رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق دنیا میں سالانہ ہونے والی 15سے 20فیصد اموات کی وجہ کینسر ہے، جبکہ پاکستان میں ہونے والی6 فیصد اموات کی وجہ کینسر ہے۔

ماہرین کے مطابق دنیا میں اموات کی سب سے بڑی وجہ کینسر ہے اور اگر اس پر قابو پانے کے لئے مزید اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2030ء تک اس مرض میں مبتلا افراد کی تعداد دوگنا ہو جائے گی۔ پاکستان میں پائے جانے والے کینسر کی اقسام میں چھاتی کا سرطان سرِ فہرست ہے جبکہ لیوکیمیا اور منہ کا سرطان دوسری دو بڑی اقسام ہیں۔

اگر پاکستان میں پائے جانے والے کینسر کی اقسام کی جنس کی سطح پر تقسیم دیکھی جائے تو خواتین میں چھاتی کے سرطان کے ساتھ ساتھ رحم، یوٹریس اور منہ میں ہونے والی اقسام اہم ہیں، جبکہ مرد حضرات میں منہ میں پیدا ہونے والی کینسر کی مختلف اقسام کے علاوہ جگر، پروسٹیٹ، پھیپھڑوں اور لبلبے کا سرطان کثرت سے پائی جانے والی کینسر کی اقسام ہیں۔
پاکستان میں کینسر کے علاج کے لیے کئی سرکاری و غیر سرکاری ادارے کام کر رہے ہیں۔ کراچی میں عباسی شہید ہسپتال ، لاہور میں انمول ہسپتال اور دیگر سرکاری ہسپتالوں میں کینسر کے علاج کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں یہ سب اپنی اپنی جگہ انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں لیکن ایک بات بالکل عیاں ہے کہ کینسر کے علاج کے لیے شوکت خانم ہسپتال جو کام کر رہا ہے وہ پاکستان تو کیا دنیا بھر میں اور کہیں نہیں ہو رہا ۔ یہ ایک ایسا منفرد ادارہ ہے جہاں کینسر کے مستحق مریضوں کو بین الاقوامی معیار کی تشخیصی اور معالجاتی سہولتیں مفت فراہم کی جاتی ہیں۔

اس ہسپتال کے قیام کا مقصد بھی یہی تھا کہ کینسر میں مبتلا غریب اور نادار مریضوں کو کینسر کے علاج کی جدید سہولتیں کی بلا امتیاز فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

اس ہسپتال کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ یہ اس خطے کا واحد ہسپتال ہے جو خالصتاََ عوام کے عطیات سے تعمیر کیا گیا اور آج بھی یہ اندرون و بیرونِ ملک سے موصول ہونے والی زکوٰۃ و عطیات کی مدد سے دکھی انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہے۔
ہسپتال انتطامیہ کے مطابق یہا ں علاج کی غرض سے آنے والے مریضوں میں سے 75فیصد کو یہ سہولتیں مفت فراہم کی جاتی ہیں ۔ یہ بات پاکستانی قوم اور ہسپتال کی انتظامیہ کے لیے باعثِ فخر ہے کہ ہسپتال کے قیام سے لے کر اب تک ہزاروں افراد مفت علاج سے مستفید ہو کر صحت مند اور کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔

اپنے قیام سے لے کر اب تک یہاں مستحق مریضوں کے مفت علاج کی مد میں تقریباََ 33ارب روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔ اس قدر وسیع پیمانے پر کینسر جیسے مرض کا مفت علاج فراہم کرنے کی کوئی اور مثال شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں مل سکے۔یوں تو پاکستانی خیرات کرنے والی دنیا کی پانچویں بڑی قوم ہے۔

اوسارا سال خیرات کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن ماہ رمضان میں مستحق افراد کی مدد کرنے کا یہ جذبہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایسے موقع پر جذبات کے ساتھ احتیاط بھی ضرورہی ہوتی ہے نیک نیتی سے دیئے گئے پیسے کو نیک مقاصد کے لیے ہی استعمال ہونا چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانا پیسے دینے والے کی بھی ذمہ داری ہے۔

یہ کام کوئی ایسا خاص مشکل بھی نہیں اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں آپ کو ایسے ادارے نظر آجائیں گے جن کی کارکردگی ان کی دیانت داری اور پیشہ ورانہ قابلیت کا منہ بولتاثبوت ہے۔ یاد رکھیے ایسے افراد کسی بھی معاشرے کا حسن ہوتے ہیں جو معاشرے میں موجود غریب و نادار طبقے کی فلاح کا بیڑا ٹھاتے ہیں۔ اگرچہ خدمت خلق کوئی آسان کام نہیں لیکن یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہر قسم کی تنقید اور تکلیف خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے اپنے مشن کو جاری رکھتے ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ آہستہ آہستہ ایسے افراد عوام کے دلوں میں گھر کر لتے ہیں۔ ان کی خدمات ان کی کارکردگی کا ثبوت بن کر لوگوں کو اس بات پر آمادہ کرتی ہیں کہ وہ بھی ان کے مشن کی تکمیل میں اپنا حصہ ڈالیں ۔

اس وقت جب تمام مسلمان آپس میں خوشیاں بانٹتے اور مستحق لوگوں کے لیے زکوٰۃ و عطیات نکالتے ہیں اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ یہ زکوٰۃ و عطیات کینسر کے نادار مریضوں کے لیے زندگی کی کرن بن جائیں۔ یاد رکھیں آپ کی زکوٰۃ و عطیات کا انسانی جان بچانے سے بہتر اور کوئی مصرف نہیں ہو سکتا، یہی رمضان کا اصل پیغام ہے۔

مزید :

رائے -کالم -