ٹرمپ کی جیت اور عمران خان

   ٹرمپ کی جیت اور عمران خان
   ٹرمپ کی جیت اور عمران خان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 یہ عجیب بات ہے کہ امریکہ کے عوام بھی پاکستان کے عوام کی طرح سوچتے ہیں۔ ہم بھی سمجھتے تھے کہ ٹرمپ جیت جائے گا اور امریکی بھی اسے سچ ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ ٹرمپ کی جیت نے پی ٹی آئی کو ایک نئی لائف لائن دے دی ہے۔ 90کی دہائی سے امریکہ نے تھرڈ ورلڈ ممالک میں اپنی مرضی کی حکومتیں لانے اور گرانے کے لئے عدلیہ کا استعمال شروع کیا تھا۔ پاکستان نے ٹرمپ کی آمد سے قبل اس کا علاج ڈھونڈ لیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ اور حکومت نے حفظ ماتقدم کے طور پر جو کچھ کیا، آج ٹرمپ کی جیت کے بعد پاکستان میں کم از کم عدلیہ کے ذریعے حکومت گرانے کے عمل کو بریک لگادی گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ اس بریک کو فیل کرپاتے ہیں یا نہیں!

پی ٹی آئی والے سمجھتے ہیں کہ اگر آج ٹرمپ جیتا ہے تو وہ ان کی جیت ہے اور اگر کل وہ ہم کوئی امریکہ کے غلام ہیں کا ورد کرتے تھے تو وہ ٹرمپ والا نہیں بائیڈن والا امریکہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ ٹرمپ کے ساتھ آخر عمران خان کی ایسی کی کیا قربت ہے کہ پی ٹی آئی اس قدر ہشاش بشاش پھر رہی ہے۔ اس کا جواب ایک ہی ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ بھی اسرائیلی ریاست کو پورے مشرق وسطیٰ سے تسلیم کرانے کے لئے بضد تھے اور عمران خان بھی اس حوالے سے کچھ خاص تردد کا شکار نہ تھے۔ بلکہ انہوں نے تو کشمیر کا خصوصی درجہ ختم ہونے کے بعد ٹرمپ کی ثالثی کی آفر کو دوبارہ ورلڈ کپ جیتنے سے تعبیر کیا تھا مگر نہ تو ثالثی ہوئی اور نہ ہی کشمیر کا خصوصی اسٹیٹس بحال ہو سکا۔

پی ٹی آئی کو یہ بات سمجھنے میں ذرا دیر لگے گی امریکہ میں تو ٹرمپ آگئے ہیں مگرپاکستان میں اب انہیں کوئی جنرل پاشا، جنرل ظہیر یا جنرل فیض دستیاب نہیں ہیں۔ کچھ بھی ہو، پی ٹی آئی کو اب بھی ایک بازوگلے میں لٹکا کر پھرنا ہوگا کیونکہ جب تک انہیں مقامی اسٹیبلشمنٹ میں کوئی پیچ دستیاب نہیں ہوتا، ٹیپ ریکارڈر سے گھوں گھوں کی آواز آتی رہے گی اور ان کے گانوں کا مزا کرکرا کرتی رہے گی۔ یہ بات طے ہے کہ عمران خان کو ایک پراجیکٹ کے طور پر لانچ کیا گیا تھا اور اب چونکہ لانچ کرنے والے خود معزول ہو چکے ہیں اور ان کے دس سالہ منصوبے بھی خاک میں مل چکے اس لئے عمران خان کی پاپولیریٹی پر سرخ لکیر دوبارہ سے پھر چکی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ لاکھ کوشش کے باوجود پی ٹی آئی پنجاب سے چار کیا ایک لاکھ بندہ بھی نہیں نکال پائی ہے حالانکہ انہیں اس حوالے سے کھل کر کھیلنے کا موقع دیا گیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں وہ کیا گل کھلاپاتی ہے۔ 

دوسری جانب بلاول بھٹو کا وزیر اعظم ہاؤس کا سفر دوبارہ سے کھوٹا پڑتا دکھائی دیتا ہے کیونکہ نون لیگ مخالف ووٹ اب پیپلز پارٹی کی بجائے پی ٹی آئی کا رخ کر چکا ہے اور اس کے باوجود کہ بلاول بھٹو نے 26ویں آئینی ترمیم کو عوام کو جلد انصاف کی فراہمی کے اصول پر منظور کروایا ہے، انہیں اس کا عوامی کریڈٹ پوری طرح وصول بھی نہ ہو پایا تھا کہ ٹرمپ جیت گئے ہیں۔ ہم سے پوچھیں تو ہم تو اس کا ذمہ دار جناب آصف علی زرداری کو ٹھہرائیں گے جنھوں نے فوج کے کہنے پر عمران خان کا ساتھ بھی دیا اور نواز شریف کو چور ڈاکو مشہور کروانے میں بلاول کی زبان کا استعمال بھی کیا۔ تب تک پیپلز پارٹی سمجھتی تھی کہ عمران خان پنجاب میں نوازشریف کا ووٹ کاٹیں گے اورپیپلز پارٹی کا ووٹ بینک اپنی جگہ قائم رہے گا مگر جب انتخابی نتائج سامنے آئے تو سنٹرل پنجاب کیا، جنوبی پنجاب میں بھی اسے گہری زک پہنچی جس کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ سندھ کی طرح وہاں بھی بھٹو ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اب اگر آپ گڑھی خدا بخش جائیں تو ایسا نہیں ہے کہ سارا سال وہاں عقیدت مندوں کا رش لگا رہتا ہے، اس کے برعکس بس سالانہ برسی کے موقع پر ہی ایک جلسے کا اہتمام ہوتاہے وگرنہ بھٹو کا مزاربھی سارا سال خالی پڑا رہتا ہے۔ بلاول بھٹو کے پاس نانا کے ساتھ ساتھ اپنی والدہ کی لیگیسی بھی تھی مگر افسوس کہ جناب آصف زرداری نے اسٹیبلشمنٹ سے مک مکا کرنے میں جس نرمی کا مظاہرہ کیا اور اس کے ساتھ مل کر پراجیکٹ عمران خان کی جو آبیاری کی اس کے سبب بلاول بھٹو کی راہ میں ایسی جڑی بوٹیاں اگ آئی ہیں جو اب نمو پاکر کیل کانٹوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ اس لئے جس طرح کبھی دلی تاراں کھڑک جایا کرتی تھیں، اسی طرح ٹرمپ کی جیت والی تاریں اسلام آباد کھڑکنا شروع ہو گئی ہیں۔ اگر یہ صورت حال زور پکڑ جاتی ہے تو ممکن ہے کہ اگلے انتخابات میں مریم نواز اور بلاول بھٹو ایک ہی ٹرک پر سوار ہوں اور دوسری جانب عمران خان پوری آب و تاب کے ساتھ اپنی چمک سے دلوں کو لبھارہے ہوں۔ 

ٹرمپ کی جیت نے پی ٹی آئی حلقوں میں جس امید کی کرن کو جگایا ہے اس کا اثرپاکستان کی سیاست میں جنوری تک تو جوں کا توں رہے گا مگر اس کے بعد جب ٹرمپ انتظامیہ پوری طرح اپنا کنٹرول حاصل کرلے گی تب دیکھنا ہوگا کہ وہ عمران خان کی رہائی کے لئے پاکستان پرکس حد تک اثراندازہوتی ہے۔ ایسے میں اگر حکومت عدلیہ میں موجود پی ٹی آئی عناصر کو سائیڈ لائن کرنے میں کامیاب ہو گئی تو پھر پی ٹی آئی کے پاس ایک ہی آپشن بچے گا کہ وہ جیسے تیسے عوام کو سڑکوں پر نکالے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کسی جنرل فیض حمید کی مدد کے بغیر ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ اس کا جواب آنے والے مستقبل کے پاس ہے جس کا انتظار ہم سب کو کرناپڑے گا!

ٓ

مزید :

رائے -کالم -