ریاست کہاں ہے؟
نام تھا سید عبد الحمید شاہ صاحب،تعلق ایبٹ آباد سے تھا، 1988ء میں اسلام آباد سروس جوائن کی، تین ماہ بعد انہوں نے سروس مکمل کر کے ریٹائر ہو جانا تھا،چھبیس نمبر چونگی پر ان کی ڈیوٹی تھی،جتھوں نے انہیں اغوا کیا، تشدد کا نشانہ بناتے رہے، پھر پھینک کر چلتے بنے،انہیں ہسپتال لایا گیا،لیکن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئے۔ میری کسی حوالے سے ان سے تین چار ملاقاتیں تھیں،وہ بڑے ہی اچھے انسان تھے، لیکن بجائے اس کے کہ وہ سروس سے ریٹائرہوتے، یار لوگوں نے انہیں زندگی سے ہی ریٹائر کر دیا۔
لندن میں کچھ ماہ پہلے سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی ایک غلط فہمی کے نتیجے میں پرتشدد مظاہروں نے جنم لیا، مسلمان اور مساجدجس کا خصوصی نشانہ تھے۔ فتنہ فساد پھیلنے لگا تو حکومت نے صرف ایک اعلان کیا کہ اس فساد میں حصہ لینے والے کسی بھی انسان کو نہیں بخشا جائے گا۔چوبیس گھنٹے عدالتیں لگیں اور ان لوگوں کو بھی سزائیں دی گئیں، جنہوں نے کہیں دور بیٹھے محض فیس بک پر ایک لائن تک لکھی تھی،بلکہ ان لوگوں کو بھی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا گیا جو محض ویڈیو بنانے یا تماشا دیکھنے موقع پر موجود تھے اور موقف یہ اختیار کیا گیا کہ تمہاری موجودگی کو فسادیوں نے اپنی اکثریت ظاہر کرنے کے لئے استعمال کیا۔
اب چلتے ہیں ذرا پاکستان کی طرف جہاں جتھے دندناتے پھر رہے ہیں،ملازمین مر رہے ہیں، ریاستی املاک جل رہی ہیں،ملک کا دیوالیہ نکل رہا ہے اور ایک کلٹ فارن فنڈنگ کے ذریعے ایک خونی کھیل کھیل رہا ہے، لیکن ریاست انڈوں پر بیٹھی ہے۔ سیاسی گدھ اور نام نہاد سٹیک ہولڈر عبدالحمید شاہ صاحب جیسے بیٹے بھینٹ چڑھا کر اپنے اپنے مفادات کا کھیل رہے ہیں۔ ڈرائنگ روموں میں مکروہ ڈائیلاگ کا دھندا عروج پر ہے، لیکن عبدالحمید شاہوں کے گھروں میں ماتم جاری ہے۔ امن کے نام پر خارجیوں کو جیلوں سے رہا کرنے والے آزاد پھر رہے ہیں لیکن سرحدوں سے جواں بیٹوں کی لاشیں پیٹیوں میں بند کرکے غریب والدین کو بھیجی جا رہی ہیں۔ نو مئی ہوا لیکن کسی ایک ذمہ دار تک کو نہیں پکڑا گیا۔ اس وقت پنجاب کے سربراہ موجودہ وزیر داخلہ ہی تھے، لیکن مجال ہے کہ انہوں نے کسی ایک کو پکڑا ہو،بلکہ اُلٹا ناکام آپریشن کرا کے پولیس کو کمزورجبکہ فسادی جتھوں کے طاقتور ہونے کا تاثر دے کر فسادیوں کی ہمت افزائی کی گئی۔ اب بھی ایک عرصے سے اہل ِ بصیرت چیخ رہے تھے کہ مذکورہ انتشاری ٹولا ایک اور نو مئی کرنا چاہتا ہے، لیکن اسے روکنے کے لئے کوئی انتظام نہیں کیا گیا،جس طرح وہ اس وقت ناکام ہوئے ایسے آج بھی وہ ناکام ہیں، جس طرح پہلا نو مئی سہولت کاری سے ہوا، اسی طرح مذکورہ احتجاج بھی سہولت کاری کے بغیر ممکن ہی نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ذمہ داروں کو پکڑا جائے گا؟ نو مئی کو جن اداروں پر حملہ کیا گیا ان کی لوکیشن تو شاید وہاں کے رہنے والوں کو بھی معلوم نہیں ہو گی تو ان فسادیوں کو کیسے معلوم ہوا؟ اور کیایہ محض حسن اتفاق ہے کہ ملک کے ہر شہر میں دفاعی اداروں پر ہی حملہ ہوا؟
افغانی اس انتشاری ٹولے کا ہر اول دستہ ہیں۔ ترکی اور ایران تک نے ان کو نکال کر اپنے وطن واپس بھیجا، لیکن جب پاکستان نے انھیں نکالنے کا اعلان کیا تو ایک دھمکی دی گئی اور پاکستان نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔اسی طرح ایران اور چین کے قومی ترانے میں بھی ساز ہیں، لیکن وہاں افغان کھڑے ہوتے ہیں، لیکن پاکستان کے قومی ترانے کی توہین کی گئی، جس پر کوئی معافی نہیں مانگی گئی، لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان ان کے آگے بے بس کیوں ہے؟
ریاست نے اگر انڈوں پر ہی بیٹھنا ہے تو عبدالحمید شاہ جیسے بیٹوں کو ان جتھوں کے سامنے کیوں کرتی ہے؟ نام نہاد سٹیک ہولڈر اور پالیسی سازوں کو خود ان کا سامنا کرنا چاہئے۔ریاست اپنے بیٹوں کا خون پینے کی بجائے اپنے دشمنوں کا خون کیوں نہیں پیتی؟یہ تو ناگن کا طریقہ کار ہے۔
کس کو نہیں معلوم کہ ریاست کو اس حال میں پہنچانے والے اور انتشاری ناگ پالنے کون ہیں؟کیا ریاست میں ہمت ہے کہ وہ باجوہ، ظہیر الاسلام،شجاع پاشا، راحیل شریف، ثاقب نثار، بندیال اور فیض حمیدجیسوں سے حساب لے سکے؟ ان کی مراعات بند کر سکے یا جو نقصان ان کی وجہ سے ہوا ہے اس کی بھرائی کرا سکے؟ یہاں تو حال یہ ہے کہ خون آشام صحافتی درندے سوشل میڈیا پر آگ بھڑکا رہے ہیں اور جن لوگوں نے مہینوں کی محنت سے نومئی کرایا،انہیں بین کرنے کی بجائے ان کی سہولت کاری کر کے انہیں ایوانوں تک پہنچایا گیا اور اب وہی لوگ خونی احتجاج کرا رہے ہیں اور وہ بھی عین اس وقت جب ایک عرصے بعد پاکستان میں ایک بڑا بین الاقوامی ایونٹ ہونے جا رہاہے، جس کا تعلق براہِ راست معیشت کے ساتھ ہے، سوال یہ ہے کہ ریاست فتنہ پروروں کے آگے بے بس کیوں ہے؟ عوام اور فورسز سے گزارش ہے کہ جان بچانا فرض ہے۔ریاست اور عوام دونوں کو سیاسی جماعت اور کلٹ میں فرق سمجھنا ہو گا؟ سی پیک افتتاح کی طرح اس موقع پر بھی احتجاج؟ جناب سیاست کریں لیکن ملک دشمنی تو نہ کریں۔