تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 44
اورنگ زیب چاندی کی چوکی پر جاء نماز بچھائے بیٹھا تھا۔اکہرا کشیدہ جسم سر سے پاؤں تک سفید پوش تھا۔اونچی فراخ پیشانی پر سفید مندیل کسی ہوئی تھی۔موتیوں کو سرپیچ مرصع جھاڑ کی روشنی میں جگمگا رہا تھا۔سیاہ گھنے کھنچے ہوئے ابروؤں کے نیچے پتھر یلی ٹھنڈی سیاہ ذہین آنکھیں روشن تھیں جن میں تیرتے ہوئے منصوبوں سے اپنی دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کا مطلق العنان حکمران تھا۔سیاہ پٹکے میں نیلم کے دستے کا خنجر آویزاں تھا۔جس کی تڑپ مغل دارالسلطنت پر قہر الہیٰ کی طرح مسلط تھی۔زانوؤں پر وہ مضبوط ہاتھ رکھے ہوئے تھے جن میں تاریخ نے کشور ہند کا مقدر سونپ دینے کی قسم کھا لی تھی۔سامنے سونے کی رحل پر آخری صحیفہ آسمانی زرتارجزدان میں بند رکھا تھا۔یعنی سونے والا شہنشاہ ابھی تلاوت کلام پاک سے فارغ ہو تھا۔پشت پر بوڑھے منظور نظر خواجہ سراؤں کا دستہ صف باندھے موجود تھا۔پھر نقیبوں کی آوازیں بلند ہوئیں
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 43 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’خانِ دوراں ناصری خاں‘‘
’’خان خاناں نجابت خاں‘‘
’’صف شکن خاں میر آتش‘‘
’’راجہ اندردیموتا دھمدھرا‘‘
’’راجہ بھگونت سنگھ ہاڑا‘‘
’’خاں کلاں ذوالفقارخاں‘‘
’’شیخ میر اور خان زماں اسلام خاں‘‘
باریاب ہونے والوں نے کورنش ادا کی۔چوکی کے سامنے بچھی ہوئی سرخ مخملیں مسندوں پر اجازت کے شکر میں سلام کر کے دو زانوں بیٹھ گئے،زر پوش خدام کی ایک قطار رو پہلی کشتیاں لے کر حاضر ہوئی،انواع واقسام کے شربتوں کے کامدار بلوریں گلاس چن دئیے گئے۔نفرتی گلوریوں سے بھرے خاصدان رکھ دئیے گئے۔ان تکلفات کے بعد اورنگ زیب نے نگاہ اٹھائی۔حاضرین سراپا گوش ہو گئے۔شاہزادۂ سوم پہلی بار مخاطب ہوا۔
’’غنیم کا وہ بھاری توپ خانہ جس کا خوف یلغاروں سے چور ہمر کاب لشکر کے دل پر طاری تھا۔چنبل کے کناروں پر ہماری حفاظت میں بیکار پڑا ہے۔ہماری کمک پر آنے والے لشکر آچکے ۔سلیمان کی فوجیں یہاں سے سینکڑوں میل دو پڑی ہیں۔دشمن سراسیمہ ہے ۔ان تما م باتوں کے پیش نظر ما بدولت فیصلہ کن جنگ کیلئے تیار ہیں‘‘
ٓ’’آفریں،آفریں،آفریں‘‘
سپہ سالار جو اس کے اپنے پیچھے تاریخ رکھتے تھے۔یک زبان ہو کر گرجے
’’لشکر میں ہماری خبر پہنچا دی جا ئے کہ آفتاب طلوع ہوتے ہی یلغار ہو گی۔‘‘اور بدن کی جنبش سے دربار کی برخاستگی کا اعلان کیا۔امراء دکن رخصت ہونے لگے ۔جب صف شکن خاں کو رنش کو جھکا تو ابرو کی جنبش سے روک لیا گیا۔تخلیے میں حکم ملا۔
’’نصف رات کا گجر بجتے ہی جبل مرگ(توپ کا نام) کو تین بارداغ دیا جائے ‘‘
صف شکن خاں نے تسلیم میں جھکا دیا۔
۔۔
چاندی کے پلنگ پر ریشمی مچھر دان میں داراشکوہ تکیوں پر سر رکھے داراز تھا۔خوب صورت رات کی خنک ہواؤں کے مرمریں لمس دن بھر کی شدید گرمی میں بے پناہ مشقت سے چور جسم کو سہلا رہے تھے۔قالینوں سے آراستہ صحن کے کنارے ایک خواجہ سرا ہلکی خواب ناک دھن میں رباب بجا رہا تھا۔پلنگ کے چاروں طرف کم سن غلام ہاتھوں کے فرشی پنکھے ہلا رہے تھے لیکن داراکا ذہن بے قرار تھا۔ایک کش مکش میں مبتلا تھا۔لالہ کی خبریں زہر میں بچھے ہوئے نشروں کی طرح اس کی شہ رگ میں پیوست تھیں۔برق انداز خاں کے قتل سے لشکر میں بے دلی اور بے چینی پھیل سکتی تھی،اورنگ زیب کے منصوبوں کا رنگ اور گہرا ہو سکتا تھا اور نواب؟(خلیل اللہ خاں) نواب اگر غداری کرنا چاہتاتو سب سے بڑی غداری یہ کرتا کہ دشمن کے چنبل عبور کرنے کی اطلاع نہ دیتا۔اس اہم خبر کو اتنی دیرتک روکے رکھتا کہ غنیم کو شب خون کا موقع فراہم ہو جا تا لیکن اس نے پہلی فرصت میں مطلع کیا۔کاش سلیمان،دلیر خاں،روہیلہ،راجہ مرزا،داؤ د خاں بسنت کیسے کیسے کارگزار اور وفا دارا امیر ہماری خدمت سے جدا ہو گئے،کیسابھاری اور آموزدہ کارتوپ خانہ رکاب سے نکل گیا۔توپ خانہ،توپ خانے کی کمر ٹوٹ گئی۔کیسی کیسی بے نظیر توپیں چنبل کے کنارے ہی چھوڑ دینا پڑیں۔شاہی لشکر کی یہ پہلی جنگ ہو گی۔جس میں کوئی مشہور توپ شریک نہ ہو سکے گی۔چنبل،اس ناگن نے تو ڈس ہی لیا۔چمپت رائے بندیلہ،اس کمبخت کے ساتھ کیسے کیسے سلوک کئے۔چتوڑ کی بغاوت میں اس کو شریک سمجھا گیا۔عسا کر شاہی کو سر کوبی کا حکم دے دیا گیا۔لیکن مابدولت نے یاوری کی۔علاقہ و اگزار کیا۔جان بحال کی اور اس نے ایسی غداری کی جس کا گمان تک نہ ہو سکتا تھا۔غداری کا تو جعفر(برق انداز خاں) سے بھی کبھی اندیشہ ہوا۔
دھواں،دھواں،دھواں
دشمن کی کوئی بھاری توپ تین بار سر ہوئی اور خیالوں کے بانوس بجھ گئے۔ایک لمحے کیلئے غلاموں کے ہاتھوں کے پنکھے تھم گئے۔رکاب کا سر ٹوٹ گیا۔شاید ہمیشہ کیلئے ٹوٹ گیا۔اس نے چاہا کہ تالی بجا دے لیکن مصلحت نے ہاتھ پکڑ لئے۔آواز تمام لشکر نے سنی ہو گی۔امراء بھی کچھ سوچنے اور کرنے کا موقع دیا جائے تھوڑی دیر بعد خواجہ سرا تلک حاضر ہوا گزارش کی۔
’’امر الا مراء وزیر المالک نواب خلیل اللہ خاں سپہ سالار لشکر شاہی در دولت پر حاضر ہیں اور ملتمس ہیں کہ اگر آپ بیدار ہوں تو شرف باریابی عطا کیا جائے ‘‘
نواب کی آواز نے خواب کے چہرے پر لگی ہوئی سیاہی کو اور دھو دیا۔پلنگ کے پائیں کھڑے ہو کر کورنش ادا کی پھر عرض کیا۔
’’غلام ناقص رائے میں دشمن کا توپ خانہ حرکت کر رہاہے‘‘
’’شب خون؟‘‘
’’نہیں صاحب عالم،جنگ‘‘
’’جنگ کے لئے ہم تیار ہیں امیر الامراء۔‘‘
’’قراولوں کو حکم دیا جائے کہ غنیم کی جنبش کی تفصیلات حضور سے گزاری جائیں‘‘
’’نقب لشکر کو آراستہ ہونے کا فرمان پہنچائیں‘‘
فجر کی اذان ہوتے ہی فلک دارا’’فلک برگاہ‘‘کے گلال بار میں طلوع ہوا۔بکتر کے سیئے کی دونوں پلٹیں آب زر سے لکھے ہوئے سنسکرت کے کلمات سے زردتھیں۔خود مرصع پر دوہلا لی کلغیوں کے درمیان یا قوت کا ناگ دیوتا پھن کاڑھے بیٹھا تھا۔فولادی ساق پوش پر جواہر کا جال بچھا تھا۔دونوں بازوؤں پر اندر اور شیو کی مورتیں بڑے بڑے پکھراج کے ٹکڑوں سے بنی ہوئی تھیں۔امر اء جلیل الشان نے کونش ادا کی۔مہاسنتھ نے فتح کی بشارت دیاور زردمالا گردن میں پینا دی۔دارا نے فکر سے عاری آواز میں اعلان کیا۔
’’مہاراؤ،مہارجہ چھتر سال ہاڑ اوئی بوندھی کو مہر اول عطا کیا گیا۔ہفت ہزاری منصب کے ساتھ بارہ ہزار سوار رکاب میں دئیے گئے۔داؤد خاں کی پشت پنا ہی پر مقرر کیا گیا۔‘‘
شاعر،سپاہی جنرل راجہ نے سات سلام کئے اور ایک شعر پڑھا جس کا مطلب تھا۔
راؤ کو اگر ستر (70)زندگیاں ملیں اور وہ تما م کی تمام مہابلی پر نچھاور ہوجائیں تو بھی مہابلی کے وشو اس کا بدل نہیں سکتا۔
مہاراجہ مرزا رام سنگھ راٹھور کو ہفت ہزاری منصب،بارہ سواراور ’’پیش قول‘‘ عنایت ہوا،
راجہ کورنش ادا کر رہا تھاکہ دوسرا اعلان ہوا۔
’’خان اعظم رستم خاں فیروزجنگ بہار صوبے دار و کن بارہ ہزار لشکر کے ساتھ ہمارے بائیں بازو کی سربراہی پر مقرر ہوئے
امیر الا مراء وزیر المالک نواب خلیل اللہ خاں دست راست پر قائم کئے گئے‘‘
تینوں اعزاز یافتہ سپہ سالاروں کو مغل شہنشاہی کے ان بیش بہا انعامات پر مبارکباد دی جا رہی تھی لیکن تقدیر جوتمام انعاموں اور عذابوں کی ماں ہے۔دور کھڑی ہنس رہی تھی۔ (جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 45 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں