تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 45

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 45
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 45

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

زرنگاہ فولاد کے گھنگھرو دار پاکھر پہنے آہنی مستک پوش میں سونڈ چھپا ئے لعل و جواہر سے جگمگاتی سبزیں عماری پیٹھ پر رکھے دارا کا مشہور ہاتھی’’فتح جنگ‘‘سامنے آیا۔اگلے پیروں پر جھک کر سونڈ کو مستک پر رکھ کر سلام کیا۔چنگھاڑکر فتح کی مبارکباد دی اورکھڑا ہو کر جھومنے لگا۔غلاموں طلائی سیڑھی تھام لی۔دارانے حاضرین کو دیکھا،تبسم کیا،سیڑھی پر داہنہ ہاتھ رکھا اور کڑک کر کہا۔’’غریب معاف،مغرور مرگ‘‘
پچیس اونٹوں پر لدے ہوئے باجے گرجنے لگے اور زمین وآسمان ان کے شور سے بھر گئے۔
اورنگ زیب نے مچھلی کے سفنوں سے بھراہوا شلوکا اور چست پانجامہ پہنا۔دونوں کو غلامی نے ریشمی ڈوریوں سے کس دیا۔اس پر فتوحات دکن سے یرغمال میں آئی ہوئی وہ زرہ پہنی جس کے فولاد پر سونے کا پتر چڑھا ہو اتھا۔زنجیروں سے بنے ہوئے دستانے زیب تن کئے وہ خود سر پر رکھا جس پر ہیرے کا ہلال روشن تھا۔بھاری آہنی جڑاؤ پٹکے میں وہ تلوار لگائی جس پر اٹھارہ سال کی لڑائیوں نے صیقل کی تھی۔بارگاہ سے برآمد ہوا تو سالاروں نے فتح کی بشارت نذر میں پیش کی۔ٹھنڈی، ہوشیار،چمکیلی آنکھوں سے ایک ایک چہرے پر لکھی ہوئی یقین اور وفا کی عبرت کا مطالعہ کیا اور اعلان کیا۔

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 44 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’خان خاناں نجابت خاں اور سلطان محمد دس ہزار سواروں کے ساتھ ہر اوّل پر مامور ہوئے ۔‘‘
صف شکن خاں صولت جنگ اورخان کلاں ذوالفقار خاں توپ خانے پر حاکم بنائے گئے،
میسرہ شاہزادہ مراد کی خدمت میں پیش کیا گیا۔
**
شاہزادہ مراد کا مشہور خواجہ سرا شہنشاہ تسلیم کو جھک گیا اور پھر الٹے پاؤں اپنے آقا کو خبر دینے چلا گیا۔
خان زماں سلام خاں دس ہزار سوارون کے ساتھ میمنہ پر متعین ہوئے،کمک پر راجہ بھگونت سنگھ ہاڑا،راجہ دھمدھر اور راجہ چمپت رائے کئے گئے ۔
خان دوراں ناصر خاں رکابِ خاص میں لئے گئے،
پانچ ہزار سوارون کے محفوظ لشکر میر سالار بنائے گئے۔
بہارخاں کو کلتاش ’’قول‘‘ کی مدد پر مامور ہوئے۔
لوہے میں غرق ’’کوہ وقار‘‘ہاتھی سامنے لایا گیا۔جس کی آہن پوش سونڈ میں دومن کی زنجیر لٹی ہوئی تھی اور پیٹھ پر سونے کے غلاموں نے سنہری سیڑھی لگا دی۔جو اورنگ زیب نے جنبش ست سے ہٹا دی۔ہاتھی نے اگلے پیر جھکا دئیے اور سونڈ پیش کی۔تلوار کی طرح لمبے اور گزر کے مانند بھاری دانتوں پر اورنگ زیب نے ہاتھ رکھے اور گرج دار آواز میں وہ مشہور جملہ دہرایا جو سکندرِاعظم نے دارائے ایران کے خلاف سوار ہوتے وقت ادا کیا تھا۔
’’آج اپنا سر نہیں یا دشمن نہیں۔‘‘
اور سونڈ پر پاؤں رکھ کر ایک ہی جست میں ہودج پر پہنچ گیا۔نقارے پر چوب پڑی اور لشکر حرکت میں آگیا۔129129
دریائے شفق میں غسل کرتے آفتاب نے جب ستاروں کی زبانی ساموگڑھ کے میدان میں برپا ہونے والی قیامت کی خبر سنی تو ننگے بدن آسمان پر نکل پڑا۔ساری دنیا اس کے جان سوز حسن سے بلبلا اٹھی۔فلک بارگاہ دو میل آگے دارشکوہ کا لشکر کھڑا تھا۔سب سے آگے توپوں کا ذخیرہ تھاجو پچاس پچاس قدم کے فاصلے پر کھڑی تھیں اور موٹی موٹی آہنی زنجیروں میں ایک دوسرے سے اس طرح بندھی تھیں کہ درمیان سواروں کا گزر ممکن نہ تھا۔پتیل کی موٹی موٹی نالیں دھوپ میں سونے کی طرح چمک رہی تھی۔ان کے پیچھے بارود اور گولوں کے انبارتھے۔سو سو دودو سو میل خچر یا گھوڑے اور ہاتھی اپنی اپنی توپوں کے پیچھے کھڑے تھے اور تو پچی مستعد تھے،ان کی تعداد ایک سو سے کچھ نہیں تھی۔ان کے آگے دھبوں کی صورت میں دشمن کا توپ خانہ نظر آرہا تھا۔ان کی حفاظت میں ہزار ہا پیدل تفنگیں لئے کھڑا تھا۔جن کے سبز سرخ شملے ہوا میں اڑے تھے اس کے بعد ایک ہزار اونٹ سر سے پاؤں تک جھولوں،گردنیوں اور چشم پوشیوں میں ڈوبے کھڑے تھے۔ہر ایک اورنٹ پر دو سوار زنیورلئے بیٹھے تھے۔اب ایک زنبور(دور کی مارکرنے والی بھاری بندوق)لدی تھی جن کی نالیں دور سے چمک رہی تھیں۔ان سے دو گز پیچھے راؤ چھتر سال ہاڑااورنچے سجیلے ہاتھی پر بیٹھا تھا۔پشت کے پانچ ہاتھیوں پر جھنڈے تھے۔داہنے بائیں بارہ ہزار سواروں کے گھنے جنگل میں سو ہاتھی برگد کے درختوں کی طرح کھڑے تھے جن پر راجہ کے اعزیز اور اقارب اور دوست دادشجاعت دینے کو برقرار تھے۔
راجہ کے پانچ سو گز پیچھے داہنے ہاتھ نواب خلیل اللہ خاں پندرہ سوار اور دو سو ہاتھی رکاب میں لئے عماری میں کھڑا تھا۔راؤ چھتر سال کے بائیں بازو پرکوئی ایک ہزار گز کے فاصلے پر رستم خاں فیروز جنگ سو ہاتھی اور بارہ ہزار سوار لئے حکم کا منظر تھا۔اگر ان تینوں فوجوں کو ایک کمان تسلیم کر لیا جائے تو اس پر چڑھے ہوئے چلے کی طرح راجہ رام سنگھ راٹھور سپہ سالاروں کی روایت کے برخلاف اپنے سنہرے گھوڑے پر سوار پارے کی طرح تڑپ رہا تھااور سر سے پاؤں تک زردریشم کا بانا پہنے تھاجس کے شملے گریبان اور دامن جواہرات سے لپے ہوئے تھے۔کمر کی دونوں تلواروںے قبضے یا قوتوں سے سرخ تھے۔
زرد مندیل پر بیش بہا موتیوں کا سر پیچ تھا۔سیاہ چوڑی مونچھوں کا بچھو کا نوں کے موتیوں کا بوسہ لے رہے تھے۔ڈیڑھ سو ہاتھیوں کی دیوار اس کے تین طرف حلقہ بنائے کھڑی تھی اور بھائی بھتیجے جلو میں پروانوں کی طرح اڑ رہے تھے ۔پیچھے دس سوار سونے کے ڈانڈوں کے جھنڈے اٹھائے نصب تھے۔
اور اب دارا شکوہ تھا۔فتح جنگ کے آہنی سازوسامان پر سونے کی چادر چڑھتی تھی اور قیمتی پتھروں کا پورا چمن لہلہا رہا تھا۔عماری پر سایہ کئے ہوئے آفتاب گیر پر نگاہ نہ ٹھہرتی تھی۔پشت پر پندرہ ہاتھی ماہی مراتب اٹھائے کھڑے تھے اور طوغ و علم سنبھالے تھے۔ہاتھیوں کے پیچھے پچاس اونٹ نوبت نقارے کیلئے محفوظ تھے۔ہاتھی کے سامنے پانچ کم سن خواجہ سرابادشاہوں کے سے لباس اور زیور پہنے دارا کے پانچ ہتھیار لئے سدھے ہوئے مرصع گھوڑوں پر اس طرح ساکت تھے گویا سونے کے بت کھڑے ہوں۔دارا کے سامنے پانچ ہاتھیوں کی فولادی دیوار کھڑی تھی۔جن کی سونڈوں میں زنجیریں پڑی تھی اور نکیلے ہتھیارپڑے تھے اور بارہ ہزار سواروں کی قطاردور تک پھیلی چلی گئی تھی۔
فتح جنگ کے دونوں بازوؤں پر ظفر خاں اورفخر خاں کے ہاتھی تھے اور چاروں طرف ساوات بارہہ شیوخ ہندوستان اور راجپوتا نے کے چشم و چراغ ہجوم کئے ہوئے تھے۔ان میں سے نامی گرامی شیوخ عظام اورسادات کرام ایسے جو پشتوں کے خدمات جلیلہ کے انعام میں شہنشاہ کے گرد جگہ پانے کے حق دار تھے اور غیظ کے عالم میں پیادہ ہو کر لڑنے میں ثانی نہیں رکھتے تھے اور جھنوں نے کڑے وقتوں میں جنگ سلطانی لڑ کر بڑے بڑے معرکوں کی تقدیریں بدل کر ڈالی تھیں اور یہ وہ تھے جن کی مثال کشور ہندوستان میں نہ تھی۔(جاری ہے )

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 46 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں