ترقی یافتہ ممالک کی مثال ہم سب کے سامنے ہے، بروقت اور سخت سزا انکی ترقی کا راز ہے, بات سمجھ کی ہے کوئی جتنی جلدی سمجھ جائے اتنا ہی بہتر ہے
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:13
”بیٹا! جب تک ملک عمر حیات کالج کے پر نسپل رہے لڑکیوں کے سکول آ نے جانے کے ٹائم پر دور دور تک کوئی لڑکا نظر نہیں آ تا تھا۔ جب کہیں بھی ڈسپلن پر سمجھوتا ہوتا ہے خواہ وہ گھر ہو، ادارہ ہو یا ملک سبھی بگڑ جاتے ہیں۔ انسان اپنے بگڑے گھر کے افراد کو ڈھیل کی وجہ سے قابو نہیں کر سکتا تو ملک کا تم خود اندازہ کر لو۔“
جوابدہی، جزا و سزا کا عمل ہی معاشروں کا قانون کے نیچے زندگی بسر کر نے کا واحد اور مؤثر ذریعہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی مثال ہم سب کے سامنے ہے، بروقت اور سخت سزا ان کی ترقی کا راز ہے۔۔ بات سمجھ کی ہے کوئی جتنی جلدی سمجھ جائے اتنا ہی بہتر ہے۔
قائد اعظم اور طلباء؛
میں نے انکل سے پوچھا؛”کچھ تحریک پاکستان کے بارے بتائیں۔ آپ نے پاکستان بنتے بھی دیکھا، تحریک پاکستان میں حصہ بھی لیا۔ کچھ اس وقت کے جذبات، احساسات، اس وقت کی کوئی خاص بات تو بتائیں۔ اور آج کا پاکستان، کیا کہیں گے آپ؟“ ان کے بوڑھے چہرے پر چمک آ گئی اور کہنے لگے؛”یار! کیا وقت یاد کرا دیا تم نے۔ اس وقت کے جوانوں کے جذبے کا تم تصور ہی نہیں کر سکتے ہواور نہ ہی میں الفاظ میں بیان کر سکتا ہوں۔ طا لب علموں، نوجوانوں کا جذبہ نہ میں نے ایسا کبھی پہلے دیکھا تھا اور نہ آج تک دوبارہ ویسا دیکھا ہے۔ ہما را جذبہ جان نثار کر دینے والا تھا۔ نہ کبھی گھبرائے نہ کبھی ڈرے۔مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن قائد اعظم نے خود قائم کی تھی اور نوجوانوں سے ان کی بڑی امید یں تھیں۔ مایوس انہیں ہم نے بھی نہیں کیا۔ ان کی توقعات پر بھی پورا اترے اور ہم نے اپنی ذمہ داری بھی بڑی ایمانداری،محنت اور خلوص سے نبھائی۔ نہ دن دیکھا نہ رات۔ نہ ہمارے والدین نے کبھی ہمیں روکا۔اس وقت ایسے نعرے لگتے تھے؛“
خون کی ندیاں بہا دیں گے پاکستان بنا دیں گے
سن لیں ہندو کھول کر کان بن کے رہے گا پاکستان
”دل میں کبھی یہ خوف نہ آیا تھا کہ جان چلی جائے گی۔ قائد اعظم نے لاہور آنا تھا 45یا 46 کی بات ہے۔ فیصلہ ہوا کہ لاہور مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کا وفد قائد سے ملے گا۔ میں بھی اس کا ممبر تھا۔ تمھارے والد اور نجو بھی ممبر تھے۔ لاہور کے صدر ضیاء الرحمان تھے اور ریاض شاہد(بعد میں نامور مصنف بنے۔ فلم زرقا انہوں نے ہی لکھی تھی۔)بھی ممبر تھے۔ ہم کئی دن ریہرسل کرتے رہے کہ قائد سے کیا بات کرنی ہے اور کس نے کیا کہنا ہے۔ ملاقات کا دن آ گیا۔ قائد اعظم جب بھی لاہور آتے ”ممددوٹ ولا“ ڈیوس روڈ میں قیام کرتے تھے۔ ہم ممددوٹ ولا پہنچے۔ تعارف ہوا۔ قائد اعظم نے پوچھا؛Well gentlemen do you accept me as your leader. جواب دیا؛ yes sir انہوں نے دوسرا سوال کیا؛”Do you have faith in me
جواب دیا؛ yes sir وہ مسکرائے اور بولے؛than leave it to me“ ملاقات ختم ہو گئی۔
ہم انہیں دیکھ کر کچھ کہنا ہی بھول گئے تھے۔ اس ملاقات نے ہمارے جذبے اور جوان کر دئیے تھے۔ ان کے فقرے ہمارے دل و دماغ میں سما گئے۔ کیا شخصیت تھی قائد کی، کتنا اعتماد تھا انہیں اپنی ذات پر۔ اس کی گواہی وہ الفاظ تھے جو ہمارے سامنے ان کے منہ سے ادا ہوئے تھے۔ان کے بعد کا تو کوئی بھی سیاسی شخص اُن کے پیروں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہے۔ میں نے ایسا پر سکون، پر اعتماد شخص زندگی بھر دوبارہ نہیں دیکھا۔“
مجھے یاد آیا۔(یہ بات مجھے ابا جی نے بھی بتائی تھی۔)”قائد اعظم نے اسلامیہ کالج فنڈ رئیزنگ فنکشن کے لئے آنا تھا۔ ہم سٹوڈنٹس اس بات پر بٹ گئے کہ قائد سے ٹکٹ لینا چاہیے یا نہیں۔ اسی شش و پنج میں فنکشن کادن آن پہنچا۔ ہم سب قائد کو خوش آمدید کہنے کے لیے کھڑے تھے۔ قائد ہمیشہ کی طرح وقت پر پہنچے۔ جیب میں ہاتھ ڈالا، ٹکٹ نکالا اور بولے؛”gentlemen here is my ticket." "۔ بیٹا! یہ ہوتی ہے لیڈرشپ۔ خود مثال قائم کرتے ہیں۔“ آج آپ دیکھ لیں لیڈر اؤل تو ہے ہی کوئی نہیں۔ جو نام کے ہیں ان کے کردار آپ کے سامنے ہیں۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔