’بس یار، بڈھے ہو گئے آں‘

   ’بس یار، بڈھے ہو گئے آں‘
   ’بس یار، بڈھے ہو گئے آں‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہماری نوجوانی میں کالج، یونیورسٹی کے برآمدوں میں استاد شاگرد مِلتے تو شاگرد کی کوشش ہوتی کہ جلدی سے آگے بڑھ کر سلام کرے۔ ”کیسے مزاج ہیں؟“ برطانوی شاہی خاندان کی طرح یہ پوچھنے کا اختیار صرف استاد کے پاس تھا۔بدلے ہوئے زمانے میں پروفیسر ہو یا سٹوڈنٹ، سلام کرنے میں کوئی بھی پہل کر لیتا ہے، خواہ حال پوچھنے کی نوبت آئے یا نہ آئے۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا، لیکن جمعہ کو کلاس سے باہر نکلتے ہی ایک طالب علم نے یہ بھی پوچھا کہ سر، اب آپ کیسے ہیں؟ مَیں سمجھ گیا کہ ویک اینڈ پر میرے نزلے زکام کی بریکنگ نیوز اِن تک پہنچ چکی ہے۔ نوجوان کے لہجے میں ایک مشفقانہ سی تشویش بھی تھی جسے ڈیجیٹل چالاکی سے کام لیتے ہوئے مَیں نے اپنے لیے باعثِ تکریم جانا۔ 

 ”سر، ٹمپریچر بھی ہے آپ کو یا صرف گلا خراب ہے؟“ ”نہیں، بخار تو نہیں ہوا مگر چھینکیں بہت آئیں اور جسم میں ابھی تک کمزوری ہے۔“ وطنِ عزیز میں دوستوں کے درمیان گپ بازی ہو یا استاد شاگرد کی گفتگو، ہم چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑے بڑے نتائج برآمد کر لینے کے عادی ہیں۔ میرے شاگرد نے بھی زمانہ ساز لوگوں کی طرح پکا سا منہ بنا کر کہا ”بس سر، کبھی گرمی کبھی آندھی۔ موسم بہت اوپر نیچے ہو رہا ہے۔“ ساتھ ہی بطور نسخہ کھانسی کے شربت کے علاوہ ایک انٹی الرجی گولی کا نام بھی لکھ دیا کہ گھر جاتے ہوئے اِس کا ایک پتا لیتے جائیں اور صبح و شام گرم پانی کے غرارے کرنا نہ بھولیں۔ مجھے یہ ہلکا پھلکا علاج قابلِ عمل تو لگا لیکن جاتے جاتے نوجوان نے یہ کہہ کر تراہ نکال دیا کہ ”سر، سب سے بڑی وجہ ایج فیکٹر ہے۔ آپ 80 سال کے تو ہو گئے ہوں گے؟“ 

 سوچا کہ اپنی اور بی بی سی کے یاور عباس کی عمر کا فرق بتانے کا یہ اچھا موقع ہے جنہیں انڈین آرمی میں 1942 ء میں کمیشن ملا تھا مگر اُسی دم آنکھوں میں ایک اور ڈرامائی منظر گھومنے لگا۔ اُس شام واہ کی مال روڈ پر جاوید خان اور میرے ساتھ سیر کرتے ہوئے ابا کے موسیقی نواز اور زندہ دل دوست خادم حسین چوہدری نے، جو خود کو ’چاچا یار‘ اور ہمیں ’بھتیجا یار‘ کہتے، رازداری کے انداز میں ایک مقبول ترین مغنیہ کا نام لیا اور فرمایا کہ وہ آجکل بہت تنگ کر رہی ہیں۔ پوچھا ”کیا مطلب؟“ کہنے لگے ”خواب میں آجاتی ہے۔“ میرے منہ سے نکلا ”آپ بزرگ آدمی ہو کر کیسی باتیں کر رہے ہیں؟“ جالندھری لہجے میں جواب مِلا ”بزرگ ہووے گا تیرا پیو، مَیں تے لڑکا واں۔“ خادم صاحب نے ”تیرا پیو“ کے بعد ’ک‘ سے شروع ہونے والا ’خنجر‘ کا ہم قافیہ ایک لفظ لڑھکا دیا۔ ساتھ ہی مٹک مٹک کر منہ سے طبلہ بجاتے ہوئے فٹ پاتھ پر ہلکا ہلکا رقص کرنے لگے۔

 میرے بڑوں میں بزرگی کا طعنہ مائنڈ کرنے والے وہ اکیلے آدمی نہیں تھے۔ ابا کے پھوپھی زاد بھائی، جنہوں نے ایک نشست میں بائیس کپ چائے پینے کا ریکارڈ قائم کیا،بانوے سال کی عمر میں اللہ کو پیارے ہونے سے ذرا پہلے تک ہر ہفتہ کی شب بیٹوں اور بھتیجوں کے ساتھ خشوع و خضوع سے تادمِ فجر تاش کھیلا کرتے۔اِس محفل کو، جو راولپنڈی کے جنرل ایریا میں عزیز و اقارب کے چار الگ الگ گھروں میں ترتیب وار برپا ہوتی، خاندان کی جُگت باز خواتین نے ’تاش خوانی‘ کا نام دے رکھا تھا۔ اِن میں سے میری والدہ کو ہمیشہ یہ تشویش رہی کہ بھائی صاحب لڑکوں کے ساتھ لڑکا بن جاتے ہیں اور سگریٹ پہ سگریٹ پیتے ہیں۔ خود تایا جان کا یہ حال کہ رات کا کھانا ختم ہوتے ہی تاش کی گڈی کو پھدکا کر بے تابی سے کہا کرتے ”پُتر، ہن وقت ضائع نہ کرو۔“ 

 دنیا میں آ کر کِس نے کتنا وقت ضائع کیا اور کیوں؟ یہ بحث ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔ تو پھر ساری تگ و دو کا مصرف آخر ہے کیا؟ ہمارے دادا  چوتھائی صدی تک چھوٹے موٹے کاروبار میں مشغول رہے۔ جب بھی کہا جاتا کہ اباجی، اب کام چھوڑ دیں اور آرام سے بیٹھیں تو جواب ملتا ”یار، مَیں ایک دفعہ بیٹھ گیا تو بیٹھ ہی جاؤں گا۔“ آٓخرکار اکلوتے بیٹے کے گھر میں وہی ہوا کہ ’حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے، لیٹ گئے‘۔ سانس کی بیماری تھی مگر آخری سگریٹ دنیا چھوڑنے سے دس منٹ پہلے پی۔ اِس دوران جس روز طبیعت ٹھیک ہوتی، کہیں نہ کہیں چلنے کی فرمائش ضرور کرتے۔ کبھی واہ کی انوار مارکیٹ یا لائق علی چوک، کبھی ٹیکسلا میوزیم یا جولیاں اور سر کپ کے نواحی کھنڈر۔ ایک دو بار آرڈنینس کلب بھی گئے۔ اِن موقعوں پر ارشاد ہوتا ”نہ دین سنوارا نہ دنیا۔ پر بیٹا جی، حسرت کوئی نہیں چھوڑی۔“

 یہ تو ہوئی سپورٹس مین اسپرٹ۔ تو کیا سیاسی جماعتوں کی طرح انسانی زندگی بھی کسی انتخابی منشور کے تحت ہونی چاہئیے؟ جیسے میرے والد مخصوص تنخواہ دار سوچ کا اظہار یہ کہہ کر کہا کرتے کہ بس جی، رہنے کو چھوٹا سا گھر ہو، بچوں کی تعلیم اور شادیاں ہو جائیں۔ پھر کیا چاہئیے؟ جینے کا یہ ڈھنگ تھا تو عامیانہ مگر چلیئے، بنیادی ضروریات پوری کرنے کی کاوش میں کسی نے اخلاقی پہلوؤں پر غور تو کیا۔ لندن میں البتہ معمر ہمسائی مس واٹسن سے جب کبھی گفتگو ہوئی، انہوں نے یہی کہا ”’مِسٹر ملک، مَیں اِن موضوعات پر دھیان نہیں دیتی، بس زندگی گزارتی چلی جاتی ہوں۔“ مِس واٹسن کو یہ بنیادی نکتہ میری پیدائش سے پہلے سوجھا ہوگا کیونکہ ایک روز خود انہوں نے بتایا کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران وہ سی ایم ایچ، قاہرہ میں چیف میٹرن تھیں۔ آخری بار مِس واٹسن کے ساتھ چائے چھ سال پہلے پی۔ پھر پردہ گر گیا۔

 انسانوں کی یہ انواع اِس بنیاد پر وجود میں آئیں کہ کِس نے زندگی کا کوئی شعوری مقصد ڈھونڈ  نکالا اور کون بے وجہ یہی کہتا رہا کہ ”بحرِ ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے“۔ پھر بحرِ ظلمات والوں کو بھی الگ الگ اقسام میں بانٹا جا سکتا ہے، مگر اکثریت انہی کی ملے گی جو زندگی بھر اپنی دلچسپی کے کسی نہ کسی کام میں لگے رہے۔ جیسے میرے کزن اور صاحبِ طرز صحافی خالد حسن پچھتر سال کی عمر میں بھی امریکی دارالحکومت میں پاکستان کے ایک انگریزی روزنامہ کے نہایت پھرتیلے نامہ نگار تھے۔ اب اِس سے زیادہ عمر میں ہمارے بزرگ دوست خواجہ محمد زکریا پنجاب یونیورسٹی اورئینٹل کالج میں پروفیسر امریطس کے طور پر تدریس و تحقیق میں مصروف ہیں۔ دو سال پہلے تک لڑکوں کی طرح کار چلاتے تھے۔ خواجہ صاحب کے شاگرد اور اکثر ہمکار اُنہیں اب بھی جوان سمجھتے ہیں۔ 

 ”یار بڈھے ہو گئے آں“۔ مَیں نے یہ الفاظ پہلی بار عظیم صدا کار اور ایکٹر ضیا محی الدین سے اُن کے بر منگھم والے گھر میں سُنے، اور اور وہ بھی چونتیس سال پہلے۔ اُس وقت اُن کی عمر ساٹھ برس ہو گی۔ دن بھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر براؤن رنگ کا کرتہ، سفید شلوار اور پاؤں میں باٹا کے خوشحال تاجروں والے سلیپر پہنے ہوئے، انہوں نے اُس روز میرے دوست عباس ملک اور مجھ سے یہ بھی کہا کہ ”مَیں بڑے گھٹ لوکاں نال پنجابی بولناں آں، تسیں اوہناں وچوں او۔“ پھر آئی تھی ”بڈھے ہو گئے آں“ والی آواز۔ یہ کہہ کر بھی ضیا صاحب نے مزید بتیس سال وکٹ نہ چھوڑی۔ سوچ رہا ہوں کہ کہن سالی کا طعنہ سُن کر مَیں بھی عظیم صداکار کی طرح ڈٹ جاؤں اور وقفے وقفے سے اُنہی کی طرح مسکرا مسکرا کر کہتا رہوں ”بس یار، بڈھے ہو گئے آں۔“ 

مزید :

رائے -کالم -