دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ بتیسویں قسط
نظام الدولہ
ڈاکٹر مشانی کی خاموشی سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ رضا مند ہیں۔ حیرانی تو ان کے چہرے سے بھی ہویدا تھی ۔ کندھے اچکا کر خامو ش رہنے کا مطلب واضح تھا کہ آفر کو بہرحال ٹھکرانا نہیں چاہئے۔
میں سوچ بچار میں کبھی وقت ضائع نہیں کرتا۔ بروقت فیصلہ انسان کو بدل دیتا ہے اور میں یہی کرتا ہوں۔ دلاآویز مسکراہٹ لبوں پر سجائے ہوئے میرے سامنے بیٹھی مہربان دویکارانی سے میں نے کہا’’یہ میرے لئے خوش بختی کی علامت ہے۔ مگرمیں آرٹ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔‘‘
میں نے اب تک محض ایک فلم دیکھی تھی اور وہ بھی جنگ کے بارے میں تھی یہ دستاویزی فلم تھی جو ڈیولالی فوجیوں کو دیکھائی گئی تھی۔
’’آرٹ سکھانا ہماراکام ہے۔‘‘ وہ مسکراتی، آبدار نظروں سے میرا جائزہ لیتے ہوئے پوچھنے لگی۔ ’’تم نے پھلوں کی تجارت میں تجربہ کیسے حاصل کیا؟‘‘
’’فی الحال تو میں سیکھ ہی رہا ہوں۔ مجھے زیادہ تجربہ نہیں ہے۔‘‘ میں نے صاف گوئی سے کام لیا۔
دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ اکتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ہاں تو اس طرح کہو ناں۔۔۔‘‘ اس نے چہک کر کہا۔ ’’دیکھو اگر تم پھلوں اور اس کی کاشت کے بارے میں محنت کرکے سیکھ سکتے ہو تو فلم میں اداکاری کرنا بھی سیکھ سکتے ہو۔ تمہارے لیے ناممکن نہیں۔ مجھے ایک پڑھے لکھے، خوبرو نوجوان کی ضرورت ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ تم میں یہ ساری صلاحیتیں اور جوہر موجود ہیں ۔تم ایک دن نام پیداکرسکتے ہو۔‘‘
اس کے الفاظ کی تاثیر نے میرا دل چھو لیا اور مجھے یقین ہو چلا کہ جیسے وہ سچ کہہ رہی ہو۔۔۔
دوپہر کے کھانے کاوقت ہو چلا تھا۔ اس نے ہمیں بھی کھانے کی دعوت دی مگر ڈاکٹر مشانی کو جلدی واپس پلٹنا تھا لہٰذا انہوں نے نفاست سے معذرت کر لی۔ راستے میں ڈاکٹر مشانی نے زیادہ بات چیت نہیں کی۔ یہ غیر متوقع پیش کش تھی اور اس کی ہم دونوں کوامید نہیں تھی۔ لہٰذا مجھے اس پر مزید سوچنے کی ضرورت بھی محسوس ہونے لگی کہ مجھے اس آفر کے بعد کیا ملے گا۔ مجھے بہرحال ا س بات کی فکر نہیں تھی کہ میں ایک اداکار بننے جا رہا تھا۔
دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 33پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
گھر پہنچتے ہی سب سے پہلے میں نے ایوب صاحب کو یہ خوشخبری سنائی تو وہ حیران رہ گئے۔ وہ اس بات پریقین کرنے کو تیار نہیں تھے کہ دویکا رانی مجھے ہر مہینہ اداکاری کے بدلے 1250روپے تنخواہ دیا کرے گی۔ کہنے لگے ’’تمہیں غلطی ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے انہوں نے تمہیں سالانہ 1250روپے دینے کا وعدہ کیا ہو؟‘‘ ایوب صاحب نے یہ بات اس لئے کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ راجپکور 170روپے ماہوار لیتے تھے۔ ایوب صاحب کی دلیل سن کر مجھے فکر لاحق ہوا۔ اگر یہ مغالطہ تھا تو سالانہ 1250میں محنت کرنا مجھے گوارا نہ تھا۔ اس رقم سے آغا جی کا قرض ادانہ ہو سکتا تھا نہ کاروبار پھیلایا جا سکتاتھا۔ مجھے اب اس پرنظر ثانی کرنی تھی کہ اگر تو مجھے اپنے خاندان کا بوجھ اتارنا ہے توپھر ماہانہ رقم معقول ہونی چاہئے۔
میں نے تہیہ کیا کہ مجھے ڈاکٹر مشانی سے اس بارے میں بات کرنی چاہئے کہ وہ کیا رائے رکھتے ہیں؟ میں ان سے ملنے چرچ گیٹ چلا گیا اور انہیں بتایا کہ 1250روپے سالانہ مشاہرہ بہت قلیل رقم ہے۔ ڈاکٹر مشانی نے کہا’’یوسف اس میں پریشانی کیا ہے ابھی فون کرکے پوچھ لیتے ہیں۔‘‘ ویسے انہیں یقین تھا کہ دویکارانی نے ماہانہ ہی1250کی آفر کی تھی۔ لیکن تسلی کے لیے انہوں نے دویکارانی کو فون کیا اور میرے گمان کے بارے میں بتایا تو جواباً ان کے چہرے پر مسکراہٹ تیرنے لگی۔ دویکارانی نے کنفرم کیا کہ اس نے 1250روپے ماہانہ ہی کہے ہیں۔ میں بہت خوش اور مطمئن ہوگیا اس روز میں نے ڈاکٹر مشانی کے ساتھ ہی کھانا کھایا اور ان کی ہمدردی و محبت کا شکریہ ادا کیا۔
یہ 1942کا سال تھا جمعہ کا دن تھا۔ تاریخ مجھے یاد نہیں۔ اگلے روز میں چرچ اسٹیشن پر ڈاکٹر مشانی سے دوبارہ ملا۔ دوپہر کا کھانا ان کے ساتھ کھایا۔ جمعہ اداکیا اور پھر نہایت راز داری سے گھر چھوڑ دیا۔ میں اپنی منزل کی جانب روانہ ہوا ۔کسی کو یہ خبر نہیں تھی کہ میں کہاں جا رہا ہوں۔
اس روز میں بمبئی ٹاکیز ٹیکسی میں پہنچا،چوکیدار نے بڑے ادب سے گیٹ کھولا ۔اسے علم ہوگیا تھا کہ میں دویکا رانی کا مہمان ہوں۔دویکا رانی اپنے آفس میں تنہا تھی۔اس نے خوش دلی سے میرا استقبال کیااور میں نے ملازمت کی حامی بھرلی۔اس بار میں نے دوبارہ اس سے آفر کے بارے میں استفسار نہیں کیا کیونکہ یہ بات اب مجھے بداخلاقی لگ رہی تھی کہ بار بار کنفرم کرنا اچھی سوچ کی علامت نہیں ہے۔دویکا رانی نے مجھے کچھ اہم باتیں بتائیں اور کہا کہ اس بارے میں اب مجھے کمپنی کے ساتھ ایک معاہدہ کرنا ہوگا اور اسکی رسمی کارروائی مسٹر آئیر کریں گے۔وہ چاہتی تھی میں جلد از جلد کام شروع کردوں ۔اور اگلے روز سے بمبئی ٹاکیز پہنچ جاؤں۔اس دور میں چار ہندسوں پر مشتمل تنخواہ خاصی معقول تھی۔میں اس رقم سے اپنے خاندان کی فلاح کی بنیادیں مضبوط کرسکتا تھا۔بہرحال مجھے خوشی تھی مگر میں آغا جی کو اس بارے کچھ نہیں بتا سکتا تھا کیونکہ وہ اس پیشے کے بارے بہت اچھی رائے نہیں رکھتے تھے۔اماں کو اپنی تنخواہ کے بارے میں بتایا تو وہ متردد ہوئیں۔گماں ہوا کہ حرام تو نہیں کمارہا اور ایسی کون سی نوکری ہے جو اسقدر زیادہ تنخواہ دے رہی ہے۔میں نے انہیں مطمئن کیا کہ اردو بولنے کی وجہ سے مجھے ترجیحاً یہ نوکری ملی ہے ۔اس رقم سے بہن بھائیوں کی تعلیم ،آغا جی کا قرض اور کاروبار کی وسعت کا معاملہ درست ہوجائے گا جبکہ بہنوں کی شادیاں دھوم دھام سے کی جاسکیں گی۔اماں نے یہ سنا تومجھے گلے لگا کر تھپکی دی اور دعا بھی’’ خدا تجھے اپنی امان میں رکھے‘‘
(جاری ہے)