انسان دوستی کا تصور

انسان دوستی کا تصور

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اس پْرفتن (فتنہ انگیز) دور میں بھی انسانیت سے محبت، انسانیت کی فلاح و خیر خواہی اور انسانیت سے دوستی کے لئے بے لوث خدمات سرانجام دینے والے افراد کی کمی نہیں، درحقیقت معاشرہ ان نیک سیرت و مخلص کردار لوگوں کی وجہ سے ہی قائم و دائم ہے، اگر دنیا سے انسانیت کے خیر خواہ بالکل ختم ہوجائیں تو جنگل کا نظام نافذ ہوجائے اور پُرامن و فلاحی معاشرہ کا وجود ناممکن ہوجائے،انسان دوستی کی اہمیت کیوں ہے؟ اگر ہم ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلق  بنائیں تو ہم زندگی کے ہر میدان  میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔تمام امکانی، انسانی ممکنات کو کھولتا  اور ایک دوسرے کو سمجھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ بہتر عمل تلاش کرنے کی اجازت دیتا ہے۔انسان دوستی کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ ہم اکثر اپنی زندگی میں کسی نہ کسی حوالے سے دوسرے افراد کے ساتھ منسوب ہوتے ہیں۔ ہم ایک معاشرے کا حصہ ہیں اور اگر ہم اپنے ہمسایہ، دوست، رفیق، اور خاندان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں گے تو ہماری زندگی بہتر ہو گی۔ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے کے لئے ہمیں دوسروں کے احترام، محبت، اعتماد، وفاداری، اور تعاون کی اہمیت کو سمجھنا   ہوگا۔ اللہ رب العزت نے تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے۔

معاشرے میں موجود غربت، مایوسی، فکر معاش، احساس محرومی، مہنگائی، ناگواری کی کیفیت اور معاشرتی ناہمواریاں تیزی سے لوگوں میں ذہنی دباؤ اور افسردگی کا باعث بن جاتی ہیں، ان گھمبیر حالات میں انسانیت سے محبت رکھنے والے افراد کی جانب سے فلاح انسانیت کے لئے فراہم کی جانے والی خدمات کٹھن حالات کو بھی آسان بنا دیتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انسان کی تمام ضرورتوں کا لحاظ کرتے ہوئے زندگی کے تمام شعبوں کے لئے اصول اور قوانین بنائے ہیں اور اسی طرح انفرادی، خاندانی اور سماجی زندگی کے ہر پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے بہترین دستور پیش کیا ہے، انسان کی اجتماعی زندگی کی ضرورتوں میں سے ایک اہم ضرورت اس کا دوسرے انسانوں سے تعلقات ہے اور جب انسان اپنے ارد گرد رہنے والے انسانوں سے تعلقات قائم کرے گا تو یقینا اس کا کسی نہ کسی کے ساتھ گہرا رابطہ قائم ہوگا، اسی قربت اور گہرے رابطے کو ہمارے معاشرے میں دوستی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے تو گویا دوستی انسان کی معاشرتی زندگی کی اہم ضرورتوں میں سے ایک ہے لہٰذا دین اسلام نے اس رشتہ اور تعلق کے حوالے سے بھی انسانوں اور خاص طور پر مسلمانوں کی رہنمائی کرتے ہوئے ان کے لئے مشعل راہ کا کام کیا۔انسانی رشتوں میں خون کے رشتوں کے علاوہ بعض اوقات خونی رشتوں سے بھی زیادہ جس رشتے نے بڑا مقام پایا ہے وہ ہے دوستی۔ کہاجاتا ہے کہ ہمارا بھائی ہمارا بازو ہوتا ہے،لیکن ہمارا دوست ہمارادِل ہوتا ہے کہ جس کو ہم اپنے سارے راز بتاتے ہیں اور جس سے ہم اپنی ہر خوشی اور غم بانٹتے ہیں، جس کو ہم  دکھ سکھ کا ساتھی بناتے ہیں۔ کسی حکیم نے کہا تھا کہ دوست ایک چھتری کی طرح ہوتا ہے، جب بھی مسائل اور مشکلات کی بارش ہوتی ہے ہم کو اس کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ تجربہ اور مشاہدہ بھی یہی بتاتا ہے کہ خوشیوں سے زیادہ غم کے وقت انسان کو اپنے دوست کے کندھے کی ضرورت پڑتی ہے کہ جس پر سر رکھ کر وہ رو بھی سکے اور اسی کندھے کے سہارے اس تیزوتند آندھی (مشکل حالات)  میں وہ چل بھی سکے۔ 


امام ابن جریر طبریٰ نے اپنی تفسیر میں یہ بات نقل کی ہے کہ حضرت علیؓ نے دوستوں کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے فرمایا: اپنے بھائیوں (دوستوں) کو تھامے رکھو! اس لئے کہ وہ دنیا میں کم ہی ملتے ہیں اور آخرت میں بھی کم ہی ہوں گے۔کیا تم نے اہل جہنم کا(قرآن میں وارد) وہ جملہ نہیں پڑھا: ”سو (آج) نہ کوئی ہماری سفارش کرنے والا ہے، اور نہ کوئی  مخلص دوست ہے“۔(سورہ الشعراء: ۱۰۱۔۱۰۰)  علامہ زمخشری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ سفارش کرنے والوں کے لئے جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے جبکہ دوست کے لئے واحد کا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سفارش کرنے والے بیشمار مل سکتے ہیں لیکن سچا،پکا، مخلص اور خیر خواہ دوست کم ہی ملتا ہے۔دوستی کا معیار اسلام میں محبت،تقویٰ اور پرہیز گاری ہے، کیونکہ انسان کی فطری طور پر دوستی ان لوگوں سے ہوتی ہے جو اس کے ہم خیال ہوں اسی بنا پر یہ مثل مشہور ہے کہ آدمی اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے، دوستوں کے ساتھ مل جل کر رہنے اور وقت گزارنے کا نام ہی زندگی ہے، اگر دوستی میں ایثار و قربانی اور محبت کی آمیزش نہ ہو تو یہ ایسے ہی ہے جیسے پھول تو ہو مگر اس میں خوشبو نہ ہو،دوستوں سے نفرت اور بیزاری انسان کو تنہائی کی ایسی دلدل میں پھنسا دیتی ہے جس میں وہ عمر بھر مقید رہتا ہے، جب انسان دوستوں میں مل جل کر رہتا ہے اور ہر معاملہ میں ان کو شریک کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں بعض اوقات اس کو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچتی ہیں، کبھی اس کے جذبات کو ٹھیس لگتی ہے جب کوئی شخص ان اذیتوں کو برداشت کرتا ہے تو اس کے قلب میں اس سے جگہ پیدا ہوتی ہے، اچھے اخلاق نشو ونما پاتے ہیں اس میں تحمل و برد باری ایثار و محبت، ہمدردی و شجاعت کے اعلیٰ ترین اوصاف پیدا ہوتے ہیں وہ انسان کامیاب تصورکیا جا تا ہے۔”بْرے دوستوں کی صحبت سے تنہائی بہتر ہے اور نیک لوگوں کی صحبت، تنہائی سے بہتر ہے اور اچھی بات کہنا خاموشی سے بہتر جبکہ بری بات کرنے سے خاموش رہنا بہتر ہے“۔(شعب الایمان للبیہقی، امام ابی بکر احمد بن الحسین البیھقی، الرقم: 4639)

مزید :

رائے -کالم -