فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 236
ہم نے کہا ’’مگر ہماری فلم کی ریلیز کیلئے اتنا لمبا انتظار نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
انہوں نے کہا ’’تو پھر آپ بذریعہ ہوائی جہاز پوزیٹو منگا لیجئے۔ مگر اس طرح زائد اخراجات آپ ہی کو برداشت کرنے ہوں گے۔‘‘
سب نے ہمیں مشورہ دیا کہ تمہیں یہ زائد اخراجات برداشت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر ڈسٹری بیوٹرز مقررہ وقت پر فلم ریلیز کرنا چاہتے ہیں تو یہ اخراجات وہ خود برداشت کریں ورنہ پھر ریلیز ملتوی کر دیں۔ ہماری خواہش تھی کہ ہماری پہلی کوشش جلد سے جلد سینماؤں تک پہنچے اور ہم ڈسٹری بیوٹرز سے اضافی رقم طلب کرنا بھی اصولاً غلط سمجھتے تھے۔ لہٰذا ’’کنیز‘‘ کے پرنٹ بنانے کے لئے جو پوزیٹو بذریعہ ہوائی جہاز منگایا گیا اس کے اخراجات بھی ہمارے گلے پڑ گئے حالانکہ ہم تقسیم کاروں سے کہتے تو وہ انکار نہ کرتے۔
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 235 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ریلیز سے پہلے ہم نے فلم ’’کنیز‘‘ کے ایک پریس شو کا اہتمام کیا جس میں لاہور کی سرکردہ فلمی شخصیات کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ فلم دیکھنے والوں نے اسے بہت پسند کیا۔ سب سے قابل قدر داد ڈبلیو زیڈ احمد صاحب نے دی۔ وہ اپنی بیگم صاحبہ کے ساتھ اس شو میں شریک ہوئے تھے۔ فلم ختم ہونے کے بعد انہوں نے ہمیں مبارک باد دی اور کہا ’’آپ کی یہ فلم ضرور کامیاب ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں دیکھنے والوں کی توقعات کے برعکس واقعات رونما ہوتے ہیں۔ فلم دیکھتے ہوئے کئی جگہ میں نے سوچا کہ اب کہانی یہ موڑ لے گی مگر آپ نے کہانی کو دوسرا ہی موڑ دے دیا۔ اس طرح فلم میں مزید دلچسپی پیدا ہوگئی ہے۔‘‘
حسن طارق صاحب اس سے پہلے ’’نیند‘‘ اور ’’شکوہ‘‘ جیسی فلمیں بنا کر اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کرا چکے تھے۔ ’’کنیز‘‘نے بطور ہدایت کار ان کے قدو قامت میں مزید اضافہ کر دیا۔ طارق صاحب نے اس فلم کو بہت شوق اور انہماک سے بنایا تھا اور اعلیٰ ترین ہدایت کاری کا مظاہرہ کیا تھا۔ ہر منظر میں انہوں نے اس کے منظر کے مطابق ماحول پیدا کیا تھا۔ اداکاروں کو اس انداز میں پیش کیا تھا کہ وہ جیتے جاگتے کردار محسوس ہوتے تھے۔ اس فلم میں ٹچز بھی تھے اور ہر سچویشن کے مطابق ماحول بھی تھا۔ انہوں نے کہانی اور کرداروں کی چھوٹی سے چھوٹی نفسیات کو بھی پیش نظر رکھا تھا۔ کہانی پر ان کی گرفت بہت مضبوط تھی۔ فلم بینوں کو اپنے ساتھ لے کر چلتے تھے۔ کبھی ہنساتے کبھی رلاتے کبھی انہیں سوچنے پر مجبور کر دیتے۔
ہنسانے اور رُلانے پر ہمیں ایک اہم بات یاد آگئی۔ ہماری سب سے پہلی تحریر کردہ کہانی ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ تھی۔ اس فلم کی کہانی میں ہم نے یہ تجربہ کیا تھا کہ یہ آخر تک خالص اور سراسر مزاحیہ فلم تھی۔ اگر کرداروں کو دیکھا جائے تو مصیبت بھی پڑتی تھی یا وہ غمگین اور اداس ہوتے تھے فلم والوں کے لئے پھر بھی یہ مزاحیہ سچویشن تھی۔ اس سے پہلے ایسی فلم بنانے کا تجربہ نہیں کیا گیا تھا اور یہ ضروری تھا کہ کہانی میں ہنسی اور غم دونوں کا امتزاج ہو۔ ڈرامائی کے مناظر کے بغیر کوئی فلم مکمل نہیں سمجھی جاتی تھی۔ شباب کیرانوی صاحب نے سوچا کہ لوگ فلم تو محض تفریح کے لئے دیکھتے ہیں اگر انہیں صرف ہنسنے کا سامان فراہم کیا جائے تو وہ یقیناً اسے پسند کریں گے۔ جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو ہم سینما میں پہنچ کر ایک طرف کھڑے ہوگئے۔ فلم شروع ہوئی ادھر تماشائیوں کے قہقہے شروع ہوگئے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ بہت سے لوگ ہنستے ہنستے کرسیوں سے گر بھی گئے۔ ہنسی اور قہقہے تھے جن کی آوازوں سے سینما ہال گونج رہا تھا۔
ہم بہت خوش تھے کہ ہماری پہلی کہانی دیکھنے والوں کو اس قدر پسند آئی ہے۔ فلم کا شو ختم ہوا اور تماشائی سینما گھر سے باہر نکلے، ہم بھی ایک طرف کھڑے ہوگئے۔ حسب معمول باکس آفس میں تماشائیوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ لاہور میں یہ رواج ہے جب تماشائی فلم کا پہلا شو دیکھ کر سینما سے باہر آتے ہیں تو قطار میں کھڑے ہوئے لوگ ان سے فلم کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ کیسی ہے؟ اگر وہ جواب میں کہیں بہت عمدہ، بہت اعلیٰ تو پھر یار لوگ کھڑکی پر ٹوٹ پڑتے ہیں لیکن اگر اندر سے باہر آنے والے ناک بھوں چڑائیں یا ’’ڈبّا‘‘ کی آوازیں لگائیں تو قطاروں میں کھڑے ہوئے لوگ ایک دم یوں غائب ہو جاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
’’ٹھنڈی سڑک‘‘ دیکھ کر باہر والوں نے ’’ڈبّا‘‘ کی آواز تو نہیں لگائی مگر اتنا کہا ’’بس ہنسی ہی ہنسی ہے، اشٹوری وشٹوری کچھ نہیں ہے۔‘‘
نتیجہ یہی ہوا کہ ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ سپرہٹ نہ ہو سکی اور ہمیں تجربہ کار ماہرین فلم نے سمجھایا کہ برخوردار جب تک فلم میں مرچ مسالے اور خاص طور پر رونا پیٹنا نہ ہو پبلک کے دل پر ہاتھ نہیں پڑتا اور فلم سُپرہٹ نہیں ہوتی۔
شباب صاحب نے یہ مشورہ اپنی گرہ میں باندھ لیا تھا اور انہوں نے ایسی دردناک گھریلو اور ڈرامائی فلمیں بنانی شروع کر دیں جس سے کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں۔
’’کنیز‘‘ کے پہلے شو پر ہم خاموشی سے اپنے ایک دوست شوکت شیخ صاحب کے ساتھ سینما ہال میں جا کر ایک طرف کھڑے ہوگئے۔ وہ ایم ایم آئی کے چیف انجینئر تھے۔ بعد میں شالیمار کمپنی کے ڈائریکٹر بن گئے تھے۔ طارق صاحب کی یہ عادت تھی وہ کبھی اپنی فلم کا پہلا شو سینما میں نہیں دیکھتے تھے کیونکہ بہت سے لوگ جذباتی ہیجان میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ٹینشن تو ہمیں بھی ہوتی تھی مگر ہم بذات خود فلم بینوں کا ردّعمل دیکھنا چاہتے تھے۔
’’کنیز کا شو شروع ہوا اور کچھ دیر بعد سینما ہال میں سنّاٹا چھا گیا۔ اس کہانی کا آغاز ہی ڈرامائی تھا۔ ابھی ریل چل رہی تھی کہ سینما ہال میں عورتوں کی سسکیوں کی آوازیں گونجنے لگیں اور کچھ دیر بعد انہوں نے آنسو پونچھنے شروع کر دئیے۔
ہمارے دوست شوکت شیخ نے چپکے سے ہم سے کہا ’’مبارک ہو رومال نکل آئے ہیں‘‘
ان کا یہ فقرہ ہمیں آج بھی یاد ہے۔ یہ بات ہم نے بھی اپنی گرہ سے مضبوطی سے باندھ لی کہ جب تک رونا دھونا شامل نہ ہو ہمارے ہاں فلم سُپرہٹ نہیں ہو سکتی۔ مگر یہ اس دور کی باتیں ہیں جب خواتین کی بہت بڑی تعداد فلمیں دیکھنے سینماؤں میں آتی تھی۔ اب مختلف وجوہات اور خصوصاً سینما گھروں کے غیر صحت مندانہ ماحول کی وجہ سے خواتین سینما گھروں کا کم ہی رخ کرتی ہیں اور یہ ’’مردانہ‘‘ تفریح بن کر رہ گئی ہے۔ پنجابی فلموں میں تو بعض اوقات سینما ہال میں دس بارہ خواتین بھی موجود نہیں ہوتی تھیں۔تماشائی آزادی سے فقرے کستے، بڑھکیں مارتے ،آوازیں لگاتے اور بھنگڑے ڈالتے تھے۔ ایسے ماحول میں عورتیں بھلا کیسے آ سکتی ہیں؟ کچھ عرصے بعد پاکستان میں مزاحیہ فلموں کا دور شروع ہوا تو رنگیلا‘ ننھا اور منوّر ظریف جیسے مزاحیہ اداکاروں کے ناموں کا ڈنکا بجنے لگا مگر یہ دور بھی زیادہ عرصے قائم نہ رہا۔ پنجابی ایکشن فلموں نے ایک بار پھر لوگوں اور فلم سازوں کی توّجہ اپنی طرف مبذول کیں۔ ان فلموں میں رقص‘ گانے اور ایکشن کے مناظر بہت اچھّے ہوتے تھے۔ ڈرامائی مناظر بھی ہوتے تھے مگر قتل و خون میں ڈوبے ہوئے ۔رومان اور مزاح کوان فلموں میں سے خارج ہی کر دیا گیا تھا۔ فلم بینوں کو اس کی کمی بھی محسوس نہیں ہوتی تھی۔
کامیاب فلم کا بنیادی فارمولا آج بھی وہی ہے جس میں روز اوّل کی طرح جذبات و احساسات اور ڈرامے کا عنصر بھی ہو۔ رومان بھی ہو۔ مزاج‘ ناچ گانا بھی ہو‘ ان سب چیزوں کو ایک خاص تناسب سے پیش کیا جائے تو وہی ایک کامیاب فلم کہلاتی ہے اور ایسی فلمیں ہر دور اور ہر زمانے میں دیکھنے والوں کو پسند آتی ہیں۔
’’کنیز‘‘ کی نمائش کے بعد ہمیں یہ اطمینان ہوگیا کہ ہم نے جس مقصد کیلئے فلم سازی شروع کی تھی بالآخر و ہ ہم نے حاصل کر لیا۔ کنیز نے ایک کہانی نویس کی حیثیت سے ہماری حیثیت متعیّن کر دی۔ اس سے پہلے ہم نے ہلکی پھلکی کہانیاں لکھی تھیں۔ فلم سازوں کا خیال تھا کہ ہم صرف کامیڈی اچھی لکھ سکتے ہیں۔ اس لئے وہ ہم سے کامیڈی لکھوانے پر اصرار کرتے تھے۔ ڈرامائی اور سنجیدہ کہانیوں کیلئے وہ ریاض شاہد سے رجوع کرتے تھے لیکن کنیز نے ان پر یہ واضح کر دیا کہ ہم بھی ڈرامائی کہانیاں اور مکالمے لکھ سکتے ہیں اور بھاری بھرکم‘ پُرشوکت الفاظ کا استعمال کئے بغیر بھی پُراثر اور ڈرامائی کہانیاں اور مکالمے لکھے جا سکتے ہیں۔ یہ کہانی ہم نے اپنی پسند سے اور اپنی خواہش کے مطابق لکھی تھی۔ اس کا ایک ایک منظر اور مکالمہ ہم نے کسی کے مشورے اور مداخلت کے بغیر خود ہی تحریر کیا تھا۔ طارق صاحب نے اس کہانی کو ہو بہو سیلو لائیڈ پر بڑی مہارت سے منتقل کر دیا تھا لیکن اس سے پہلے انہوں نے کہانی کا بغور مطالعہ کیا تھا ار اس کی روح اور کرداروں کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ ایک ہدایت کار اور کہانی نویس جس طرح باہمی میل جول سے کام کر سکتے ہیں ۔یہ فلم اس کی مثال تھی اور اس نے ہمارے اس خیال کی تصدیق کر دی تھی کہ اگر کہانی نویس اور ہدایت کار میں ہم آہنگی ہواور ہدایت کار کہانی کی روح کو سمجھنے کی کوشش کرے اور اسے اسی انداز سے سکرین پر پیش کر دے جس مفہوم میں وہ لکھی گئی ہے تو ایک بہت اچھی فلم تخلیق کی جا سکتی ہے۔ ساری دنیا میں اچھّی فلمیں اسی طرح بنائی جاتی ہیں۔ ہالی ووڈ کے بڑے بڑے ہدایت کار بھی لکھے ہوئے سکرپٹ کو فلم کا جامہ پہناتے تھے۔ ہمارے اکثر ہدایت کاروں کی طرح کہانی اور مکالموں میں اپنی پسند کے مطابق تبدیلیاں کرانے پر زور نہیں دیتے تھے۔ پاکستان میں اچھی فلمیں نہ بننے کی بنیادی وجہ یہی بیماری ہے۔ اس نظریے کی بعد میں بھی بارہا تصدیق ہوئی جس کا تذکرہ ہم مناسب موقع پر کریں گے۔
لطیفے کی بات یہ ہے کہ ’’کنیز‘‘کے سُپرہٹ ہوتے ہی ہر فلم ساز اور ہدایت کار نے ہم سے شکوہ کرنا شروع کر دیا۔
’’آفاقی بڑے افسوس کی بات ہے اچھّی کہانیاں اپنے لئے رکھ لیتے ہو ہمیں بھی ایسی کہانی کیوں نہیں دی؟‘‘
ہم نے انہیں بتایا ’’ بھائی آپ میں سے ہر ایک خود اپنی ایک کہانی لے کر آتا ہے اور اس کو اپنی مرضی اور پسند کے مطابق لکھوانا چاہتا ہے۔ آپ کہانی نویس کو ایک منشی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ اس کی سنائی ہوئی کوئی کہانی آپ کو پسند نہیں آتی۔یہی وجہ ہے کہ آپ یا تو ہو بہو غیر ملکی فلموں کے چربے بناتے ہیں یا ان کے اچھے حصے اپنی فلم میں شامل کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ ہمارا یہ تجربہ ہے کہ فلم کی کہانی ’’غریب کی جورو‘‘ کی طرح ہوتی ہے۔ فلم سے تعلق رکھنے والا ہر شخص اس میں دخل اندازی کرنا اور مشورے دینا اپنا فرض جانتا ہے۔ کوئی دوسرا شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں اس طرح دخل اندازی کی جاتی ہو۔ ہدایت کار تو خیر مختار مطلق ہوتا ہے۔ کہانی میں ٹانگ اڑانا وہ اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے۔ فلم ساز کیونکہ سرمایہ فراہم کرتا ہے اس لئے اس کا حق بھی فائق ہے۔ مگر یہ فہرست صرف یہیں آ کر ختم نہیں ہو جاتی۔ موسیقار کیمرہ مین‘ اسسٹنٹ، پروڈکشن والا، تقسیم کار یہاں تک کہ فلم ساز کے دوست احباب اور اہل خاندان بھی کہانی میں تبدیلیاں کرانے کے لئے اپنے مشورے پیش کرتے رہتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ اب ان حالات میں کہانی نویس کیا کرے اور اچھّی کہانی اور سکرپٹ کیوں کر لکھا جائے؟ (جاری ہے )
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 237 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں