مجھے انصاف کون دے گا
نسیم شاہد اچھے قلمکار ہیں۔ ایک عرصہ سے روزنامہ پاکستان میں کالم نگاری کرتے ہیں۔ بلاشبہ بہت اچھا لکھتے ہیں۔ کالم لکھتے ہوئے ان کے قلم کی نب معروضی حالات کی نبض پر ہوتی ہے۔
معاشرتی حالات پر لکھتے ہوئے دکھتی رگ کو چھیڑتے ہیں ،جس سے کالم دلچسپ تر ہو جاتا ہے۔ بات کا ابلاغ واقعے کی تہہ تک کرتے ہیں اور قاری کا دل موہ لیتے ہیں۔بات کو دل میں اتارنے کا ملکہ خوب خوب رکھتے ہیں۔
بات محسوسات تک نہیں رہتی، بلکہ دل کی واردات بن جاتی ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔پچھلے دنوں انہوں نے ایک عورت کا قصہ لکھا جو ملتان کے کسی علاقے کی رہنے والی تھی۔
وہ عورت کسی محکمے کے اہل کار کی دھتکاری ہوئی دکھیاری تھی۔ اسے پتہ چلا کہ پاکستان کے چیف جسٹس منصف اعلیٰ ملتان آرہے ہیں۔ کشاں کشاں ضلع کچہری پہنچ گئی۔
مجھے انصاف کون دے گا کی دہائی دیتی رہی۔ اتفاق سے چیف جسٹس سے ملاقات ہو گئی۔ اس نے وہاں بھی یہی جملہ دھرایا۔ چیف جسٹس نے دلاسا دیا اور کندھے سے لگایا۔ اسے انصاف ملا یا نہیں کچھ خبر نہیں۔ اللہ کرے اسے انصاف مل گیا ہو یا مل جائے۔
پرانے وقتوں کی بات ہے کہ خلیفہ وقت نے حجاج بن یوسف کو ایک علاقے کا گورنر بنا کر بھیجا۔ حجاج عہدہ کا چارج لینے کے لیے وہاں پہنچا۔ شوریدہ سر لوگ پرانی طرز کے عادی ہو چکے تھے۔ شہر کی جامع مسجد میں جمع ہوئے۔
شریر بچوں کی طرح ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے کنکر لے گئے۔ گورنر اپنی تقرری کا اعلان کرنے کے لئے اٹھا تو مجمع کی طرف سے خشت باری شروع ہوئی۔ گورنر نے گرج دار آواز میں کہا ، مجھے اس علاقے کا گورنر بنا کر بھیجا گیا ہے۔
میں دیکھ رہا ہوں یہاں شر پسندوں نے ڈیرے جما لئے ہیں۔ لاء اینڈ آرڈر کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔ راستے میں مجھے ایک سنار نے شکایت کی ہے کہ میری زیورات سے بھری صندوقچی چوری ہو گئی ہے یا کسی نے چھین لی۔
ہے میں علاقے میں عدل قائم کرنے آیا ہوں۔ سورج کے غروب ہونے سے قبل سنار کی صندوقچی اپنی اصلی حالت میں واپس ملنی چاہئے۔ وگرنہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے سروں کی فصلیں پک چکی ہیں۔ میں جس طرح بھی ہوا عدل قائم کروں گا۔ کہتے ہیں بس اسی دھمکی سے ساری شرپسندی فرو ہو گئی اور امن قائم ہو گیا۔
اگر معاشرے میں انصاف ہو اور ہر غریب و امیر کو بغیر مال خرچ کئے عدل ملے تو معاشرے میں امن قائم ہو جاتا ہے۔ اگر عدل ہی مفقود ہو تو معاشرہ ظلم کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔
ہمارے خیال کے مطابق منصف اعلیٰ کو عدل قائم کرنے کی طرف ہی پوری توجہ مبذول کرنی چاہئے۔ہر شخص شاکی ہے، سالہا سال گزر جاتے ہیں، مقدمات کے فیصلے نہیں ہو پاتے۔
عام لوگوں کی زبان پر یہ بات عام ہے کہ عدل قائم ہونے کی راہ میں وکلاء کا طبقہ بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے جو مجرموں کو تاخیری حربوں کا سبق دیتے ہیں۔ کبھی سمن کی تعمیل نہ ہونے کا بہانہ، مدعا علیہ کے دستیاب نہ ہونے کا بہانہ ایسے ہی دیگر حربے۔
ہمارے لوگ بھی عجیب ہیں، اس قانون شکنی کو قانون دانی کہتے ہیں۔ وکیلوں کی اس روش کو قانون دانی کا نام دیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہی سب سے بڑی قانون شکنی ہے:
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
اگر یہ بات درست ہے تو منصنف اعلیٰ کو چاہئے کہ اس خامی کو دور کرنے کے راستے تلاش کریں ۔ جو اہل کار یا وکیل اس کے مرتکب ہوں ان کی باز پرس کریں۔
شہر قصور کی نوعمر بچی کو ایک سفاک درندہ صفت نے بہلایا پھسلایا، اپنی ہوس کا نشانہ بنایا، پھر اسے قتل کر دیا۔ لاش بھی ملی مجرم بھی پکڑا گیا۔ سارے ثبوت بھی مل گئے۔ عدالت نے پھانسی کا حکم بھی صادر کر دیا۔
آج ایک برس سے زائد گزرنے کو آیا ہے، سزا پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ جب مقدمات اور سزا پر عمل درآمد میں اتنی تاخیر ہو گی تو مجرموں کے حوصلے بڑھیں گے۔ قتل و غارت گری میں اضافہ ہو گا۔ منصف اعلیٰ دودھ میں ملاوٹ کرنے والوں کا محاسبہ بھی کریں ، پاگلوں کے حقوق کی حفاظت بھی کریں ،لیکن ثابت شدہ مقدمات پر عمل درآمد کا جائزہ بھی لیں، تاکہ جرائم کی روک تھام ہو سکے۔
قصور کی معصوم بچی جیسا واقعہ شہید صدر ضیا الحقؒ کے زمانے میں رونما ہوا تھا۔ انہوں نے فیصل آباد کے دھوبی گھاٹ گراؤنڈ میں قاتل کو سولی پر لٹکا دیا۔ شہر کے ہزاروں لوگوں نے یہ منظر دیکھا۔ پھر کسی کو ایسی جرأت نہ ہوئی۔
اسی لیے اسلام میں سزا پر عمل درآمد ہوتے دیکھنا بھی قرآن کے مطابق عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔ملک میں قانون و انصاف کی عملداری قائم ہو جائے تو بیشتر برائیاں دم توڑ جائیں گی اور امن قائم ہو جائے گا۔