بجھے دل کیساتھ رب کی رضا سمجھ کر تسلیم کر لیا لیکن اندر سے ٹوٹ گیا ،اب بے بسی سے اس گھڑی کا انتظار کرنا تھا جس سے سب ہی خوفزدہ رہتے ہیں
مصنف:محمد اسلم مغل
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید
قسط:220
یہاں سے فارغ ہو کر ہم ٹراؤٹ مچھلی کے فارم میں گئے۔ یہ فارم پہاڑوں کے بیچ میں تھا جس کے وسط سے پانی کا چشمہ بہتا تھا۔ اس طریقہ کار میں جگہ جگہ کئی تالاب بنائے جاتے ہیں جن میں مچھلیوں کو ان کی بڑھوتری کے مطابق منتقل کیا جاتا ہے جہاں تک کہ جب وہ آخری تالاب تک پہنچتی ہیں تو وہ مکمل طور پر ٹراؤٹ مچھلی کے روپ میں آجاتی ہیں۔ ہم نے وہیں بیٹھ کر تازہ تازہ ٹراوٹ مچھلی کیساتھ ہی دوپہر کا کھانا کھایا اور وہاں راستے میں سے کچھ دیسی شہد بھی خریدا اور پھر ہوٹل میں اپنی آخری رات گزار کر ہم اگلی صبح ائیرپورٹ پہنچ گئے۔ ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی کی ہماری پرواز اپنے معمول کے مطابق جا رہی تھی۔ ورنہ بسا اوقات تو ایسا ہوتا تھا کہ خراب موسم میں کئی کئی روز کے لیے پروازیں معطل ہو جاتی تھیں اور مسافر گلگت میں ہی پھنسے رہتے تھے۔ خیریت سے واپس اسلام آباد پہنچنے پر سب نے خصوصی طور پر فواد کا شکریہ ادا کیا جس نے اس خوبصورت اور یادگار سفر کا بہترین انتظام کیا تھا۔ وہاں سے ہم بذریعہ موٹر وے لاہور روانہ ہوگئے۔
2019 میں سامعہ کی صحت آہستہ آہستہ پھر بگڑنا شروع ہوگئی۔ جس کے لیے ہمیں بار بار ڈاکٹروں کے پاس جانا پڑتا تھا۔ خاص طور پر اونکولوجی کے ڈاکٹر عارف کے پاس جو ایک بہت ہی لائق اور قابل احترام ڈاکٹر ہیں، وہ مریضوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ مایوسی کے عالم میں ہم نے روایتی ایلو پیتھک طریقہ علاج سے ہٹ کر ہر طرح کے دوسرے علاج بھی آزمائے لیکن کسی سے کچھ فرق نہ پڑا۔ 2019 اور 2020 کے دوران سامعہ ہاتھوں سے نکلنے لگی۔ یہی وہ وقت تھا جب پاکستان میں کووڈ 19کا موذ ی مرض آن پہنچا۔ جس نے دائیں بائیں، غرض ہر طرف پھیل کر تباہی مچا دی تھی۔ میرے اپنے خاندان کے کئی افراد اس سے متاثر ہوئے تھے۔ اب میری سب سے بڑی ذمہ داری سامعہ کو اس خطرناک مرض سے محفوظ رکھنا تھا۔ ورنہ اُس کی حالت اور زیادہ خطرناک ہو جاتی۔ مارچ 2020 کے بعد اس کو ایک تسلسل کے ساتھ آکسیجن کی ضرورت پڑنے لگی تھی۔ اس کی دیکھ بھال کا یہ مرحلہ میرے لیے انتہائی صبر آزما اور تکلیف دہ تھا، جس کے لیے ہم نے آکسیجن سلنڈروں اور آکسیجن کی مقدار بتانے والی مشین کا انتظام کیا ہوا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ صورتحال دن بدن بگڑتی گئی۔ اس موقع پر میری نواسی سارہ میری مدد کو آن پہنچی۔ سارہ ایک بہت ہی مہربان اور ذمہ دار بچی ہے۔ اس کو گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو وہ بھاگم بھاگ ہمارے ساتھ رہنے کو آپہنچی۔ یہ اللہ کی طرف سے میرے لیے ایک رحمت تھی۔ اس نے آتے ہی سامعہ کی دیکھ بھال کا کام سنبھال لیا اور یوں سامعہ بھی اس کی محبت کی اسیر ہوگئی۔ میری اپنی پریشان کن زندگی میں سارہ کا یہ ایثار بھرا مثبت کردار ناقابل فراموش ہے۔
سامعہ نامعلوم خوف کی وجہ سے ہمیشہ ہسپتال جانے سے کتراتی تھی۔ لیکن 8 جولائی کو اس نے خود ہی ہسپتال جانے کے لیے کہا۔ میں نے ہسپتال میں اس کے داخلے کا انتظام کیا ہوا تھا، سو ہم نے اسے ایک ایمبولینس، جس میں آکسیجن کا نظام نصب تھا، کے ذریعے ہسپتال پہنچا دیا۔ وہ وہاں 2 راتیں رہی۔ اس دوران سارہ اور میں دن میں وہاں موجود رہتے جب کہ پہلی اور دوسری رات کو رابعہ اور سمعیہ وہاں رہی تھیں۔ 9 جولائی کو اس کے ایکسرے لیے گئے جو ڈاکٹر شاہ زیب نے دیکھے، جو اس کے ڈاکٹر انچارج بھی تھے۔ایکسرے دیکھ کر ان کے چہرے پر تشویش کی ایک واضح لہر آئی۔ پھر انہو ں نے مجھے بھی ایکسرے دکھائے اور جب میں نے یہ دلدوز منظر دیکھا کہ سامعہ کے دونوں پھیپھڑے مکمل طور پر ختم ہو چکے تھے تومیں نے بجھے دل کے ساتھ اس حقیقت کو رب کی رضا سمجھ کر تسلیم تو کر لیا لیکن ایک بار پھر میں اندر سے ٹوٹ گیا تھا۔ اب ہمیں بے بسی سے بیٹھ کر صرف اس گھڑی کا انتظار کرنا تھا، جس سے سب ہی خوف زدہ رہتے ہیں۔ 10 جولائی 2020ء کو جب سارہ اور میں ہسپتال میں تھے، میں نے سامعہ کو انتہائی تشویشناک حالت میں دیکھا اور فوراً ہی اس کی بڑی بہن شاہدہ باجی کو فون پر اس کی نازک حالت کی اطلاع دی اور اُنھیں فوراً پہنچنے کے لیے کہا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔