بھٹو کے آخری ایّام , پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں . . . پہلی قسط
پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے جیل کے آخری ایام کیسے گزرے ،ان کے معمولات اور ذہنی خیالات کیا تھے ،اس بارے پاک فوج کے سابق کرنل رفیع الدین سے زیادہ بہتر کون بتا سکتا ہے جنہوں نے 323روز تک انکی سیکورٹی کے انتظامات کو سنبھالا اور ان کے قریب ہوگئے ۔انہوں نے اپنی تہلکہ خیز یادداشتوں کو ایک کتاب ’’بھٹو کے آخری 323دن‘‘ میں محفوظ کردیاتھا ۔ہم اپنے قارئین کو مصنف کا تعارف کراتے ہوئے ان تاریخٰی لمحات کو یہان قسط وار پیش کررہے ہیں تاکہ بھٹو کے آخری ایام کی داستان کو نئی نسل کے سامنے پیش کیا جاسکے۔
کرنل رفیع الدین ستمبر 1933ء میں ضلع چکوال تحصیل تلہ گنگ کے گاؤں کوٹ قاضی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم تلہ گنگ اور باقی کراچی میں حاصل کی۔اپریل1958ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے عسکری تربیت حاصل کرنے کے بعد پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ پنجاب شیر شاہ بٹا لین سے اپنی فوجی زندگی کا آغاز کیا۔1971ء میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پا کر اسی پلٹن کی کمان حاصل کی۔ آٹھ سال سپیشل سروس گروپ (کمانڈو) میں خدمات انجام دیں۔ 1965ء اور1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں بھرپور حصہ لیا۔
17مئ1978ء سے 4اپریل1979ء تک کرنل رفیع الدین نے سنٹرل جیل راولپنڈی میں مارشل لاء انتظا میہ کے جا نب سے سپیشل سیکیورٹی سپرنٹنڈنٹ کے فرائض سر انجام دیئے جہاں ایک مقدمہ قتل میں ملوث سابق وزیرا عظم ذوالفقار علی بھٹو کو رکھا گیا تھا۔ یہ کتاب ان کے اسی عرصۂ ملازمت کے مشاہدات، تجربات اور محسوسات پر مبنی ہے۔
کرنل رفیع الدین نے پاکستانی نمائندے کے حیثیت سے سنٹرل ٹریٹی آ رگنا ئزیشن(CENTO)میں بھی خدمات سرانجام دیں۔ کرنل موصوف انڈونیشیا اور ملا ئیشیا میں ملٹری اتاشی بھی رہے اور آئی ایس آئی میں تعیناتی کے دوران جہاد افغانستان سے بھی متعلق رہے۔ سروس کے دوران انہوں نے مختلف کمان، ٹریننگ اور سٹاف کے فرائض سر انجام دیئے۔ اکتوبر1988ء میں کرنل کی حیثیت سے ریٹائر ہوے۔
۔۔
سپیشل سروس گروپ(ایس ایس جی)جو عموماََکمانڈو کے نام سے مشہور ہے ‘ پاکستانی فوج کا انتہائی اہم شعبہ ہے۔ جنگ کے دنوں میں کمانڈو کو انتہائی خطرناک اور مشکل مشن سونپے جاتے ہیں‘ لیکن امن کے دنوں میں بھی وہ جان ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں۔ ان کے فرا ئضِ منصبی میں قومی رہنماؤں کی حفاظت ‘ وطن میں آ نے والی بین الاقوامی شخصیات کی سلامتی‘ حسّاس اداروں کی نگہداشت ‘ اہم فوجی اور نہایت حسّاس دفا عی تنصیبا ت کی رکھوالی ‘ اندرونی اور بیرونی پروازوں میں طیاروں کے اغواء کی ممکنہ کوششوں کی روک تھا م وغیرہ شامل ہیں۔ غرض ان جانبازوں کو جس کام کے بھی پکارا جائے وہ لبیک کہنے اور ہمیشہ اپنا فرض پوری جانفشانی سے نبھانے کیلئے مستعد اور کمربستہ رہتے ہیں۔
مقامِ فخر ہے کہ میرا تعلق بھی پاک فوج کے اس مایۂ ناز اور فعال شعبے سے رہا ہے۔فوجی زندگی تو ویسے بھی سخت جانی کا تقاضا کرتی ہے لیکن اسپیشل سروس گروپ کے معمولات اور بھی گمبھیر اور کٹھن ہوتے ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے وقت‘ پاک و ہند جنگوں کے دوران یا امن کے دنوں میں بہت سے واقعات ایسے بھی پیش آئے جو روایتی کہانیوں ‘ افسانوں اور داستانوں سے بھی زیادہ دلچسپ تھے۔ 79۔1978 میں مجھے ایک ذمہ داری سونپی گئی جو نزاکتوں اور احتیاطوں کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ بلاشبہ سنگین ذمہ داری تھی۔
لاہور ہائیکورٹ نے18مارچ1978ء کو جناب ذولفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے جرم میں سزائے موت کا فیصلہ صادر کیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آ ف پاکستان میں اپیل دائر کی گئی تو انتظامیہ نے فیصلہ کیا بھٹو صاحب کو کوٹ لکھپت جیل لاہور سے راولپنڈی سنٹرل جیل میں منتقل کر دیا جائے تا کہ سماعت کے دوران انہیں بآسانی عدالت میں پیش کیا جاتا رہے۔
بھٹو صاحب کوئی معمولی آدمی نہیں تھے‘ ملک کے صدر اور وزیراعظم رہ چکے تھے۔ ان کی حفاظت اور سیکیورٹی کے لئے غیر معمولی اقدامات کے ضرورت تھی اور یہ ذمہ داری میرے سپرد کی گئی۔
اس کام کے لئے میرا انتخاب کیوں کیا گیا؟ میں سمجھتا ہوں یہ محض اتفاق تھا۔ میرے لئے اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ اس انتخاب میں صدرجنرل محمد ضیاء الحق صاحب کا ہاتھ ہو‘اسلئے کہ میری ان سے کوئی شناسائی نہ تھی۔ ان سے میری صرف ایک سرسری ملاقات ہوئی تھی‘ جس کے لئے شاید ملاقات کا لفظ بھی موزوں نہ ہو۔ چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر ترقی پانے کے بعد وہ سکول آف انفینٹری اینڈ ٹیکٹس کوئٹہ تشریف لائے‘ جہاں میں بطور چیف انسٹرکٹر تعینات تھا۔ حسبِ دستور ادارے کے تمام افسروں کا ایک قطار میں تعارف کرایا گیا‘ جہاں مجھے بھی معزز مہمان سے ہاتھ ملانے کا شرف حاصل ہوا۔ بعد میں چائے کی ایک تقریب میں ان سے رسمی آ منا سامنا بھی ہوا۔
میں یہ عرض کر رہا تھا کہ بھٹو صاحب کی سیکیورٹی کیلئے میرا انتخاب محض اتفاق تھا۔ جب انہیں لاہور سے راولپنڈی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو میں راولپنڈی چھاؤنی میں27پنجاب رجمنٹ کی کمانڈ کر رہا تھا جو 111بریگیڈ کا حصہ تھی ۔ اس بر یگیڈ کی کمانڈ‘ بریگیڈئیر ایم ممتاز ملک کے ہاتھ میں تھی۔ دارالحکومت اور راولپنڈی میں پریڈیڈنسی کی حفاظت اسی بر یگیڈ کے سپرد تھی۔ مارشل لاء انتظامیہ میں بریگیڈئیر ممتاز سب مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے منصب پر فائض تھے۔ بھٹو صاحب کی دیکھ بھال اور حفاظت کی ذمہ داری تو انہی کی تھی‘ لیکن بالواسطہ یہ ذمہ داری انہیں اپنے ماتحت تین یونٹ کمانڈروں میں سے کسی ایک کے سپرد کرنا تھی۔ ہو سکتا ہے کہ میرا انتخاب میرے کمانڈو ہونے اور بیس سال کے بے داغ کردار اور سروس ریکارڈ کے پیش نظر کیا گیا ہو۔
پھانسی کی سزا پانے تک میں بھٹو صاحب کی زندگی کے آخری323دنوں میں ان کی حفاظت پر مامور رہا۔ اس دوران اکثر وبیشتر ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ان سے باتیں کرنے بلکہ یوں کہیے کہ ان کی باتیں سننے کا کافی موقع ملا۔ ان کے معمولات قریب سے دیکھے‘ ان سے ملنے کیلئے آنے والوں کی ملاقاتوں کے سلسلہ کا کا فی تفصیل کے ساتھ علم ہوا۔ غرض ان کی زندگی کے آخری323شب و روز کا میں قریبی عینی شاہد ہوں۔ بھٹو صاحب کیا تھے اور تا ریخ میں ان کا مقام کیا ہے؟ اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا یا مؤرخ۔ اس عرصے کے دوران میں نے جو کچھ دیکھا اور سنااسے من و عن‘ بلا کم وکاست قوم تک پہنچانے کی جسارت کر رہا ہوں تاکہ اس ضمن میں بے سروپا ‘ بے بنیاد‘ من گھڑت اور جھوٹی کہانیاں زباں زدعام رہی ہیں‘ ان کا ازالہ ہو جائے اور قوم پر حقیقی صورتحال واضح ہو سکے۔
مختلف اوقات میں مختلف افراد نے مجھ سے اس خواہش کا اظہار کیاکہ میں نہ یاداشتیں ان کے حوالے کر دوںیا انہیں ان کی مرضی کے مطابق مرتب کروں لیکن اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ میں نے مختلف دھمکیوں کے باوجود اپنی جان کا خطرہ مول لے کر ان کے اس خوہش کو شرمندۂ تکمیل نہیں ہونے دیا۔ خدا کا شکر ہے کہ میں اسے اپنے ضمیر کے مطابق مرتب کرنے میں کامیاب ہو گیا ہوں۔
اس کتا ب میں جو کچھ بھی ہے میری دیدو شنید کا ایک ریکارڈ ہے۔ میں نے پوری کوشش کی ہے کہ جو کچھ بھی میرے علم میں آ یا ہے اسے پوری دیانتداری سے قوم کے سامنے لے آؤں۔ ان تحریر سے میرا مقصد نہ تو کسی کی خوش نودی حا صل کرنا ہے اور نہ ہی اس سے کسی کی دل آزاری مطلوب ہے۔ میری تو صرف یہ کوشش رہی ہے کہ کسی حال میں بھی سچ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ علاوہ ازیں مجھے اپنی سپاہیانہ زندگی اور پیشہ ورانہ مقاصد کی صداقتوں پر فخر ہے۔ میرا سیاست سے کوئی سروکار نہیں رہا‘ نہ میں نے کبھی کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ کوئی تعلق پیدا کیا۔ میں ایک خالص پاکستانی شہری ہونے کے ناطے سے تمام آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی باتوں پر مشتمل روداد لکھ رہا ہوں۔ میں اس کتاب کے صحیح تجزیے کیلئے ہر پڑھنے والے کے حق کو تسلیم کرتا ہوں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں آج تک کسی بھی قومی المیے کے بارے میں عوام کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ قائداعظم محمد علی جنا ح ؒ کے آخری ایام کے حالات اور ان کی موت کس کسمپرسی کی حالت میں واقع ہوئی؟ مشرقی پاکستان کے سانحے کے کون ذمہ دار تھے؟ لیاقت علی خان کے قاتل کون تھے اور ان کا مقصد کیا تھا؟ صدرپاکستان جنرل محمد ضیاء الحق مع ہماری افواج کے تین درجن بہترین افسران و جرنیل صاحبان کی موت کا کون ذمہ دار ہے؟ اور پھر پاکستان کے وزیراعظم جناب ذولفقار علی بھٹوکے ساتھ کیا ہوا؟ یہ سب ہماری قوم کے ایسے
المیے ہیں جن کے متعلق قوم کو آج تک کوئی حقیقت نہیں بتائی گئی۔
چونکہ میں ان قومی المیوں میں سے کم ازکم ایک المیے کا عینی شاہد ہوں اسلئے میں متعلقہ واقعات کی اس امانت کو قوم کے سامنے پیش کرنے کی تمنّارکھتا ہوں۔
میں نے ہر لحاظ سے کوشش کی ہے کہ بھٹو صاحب پر ان کے آخری323 ایام میں جو کچھ گزری اسے پوری ایمانداری کے ساتھ قلم بند کر دوں۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے حق بیانی سے کام لیا ہے۔ اس میں نہ بھٹو صاحب کی طرفداری کی ہے اور نہ حکومت کی کسی بات کو چھپا یا ہے۔ البتہ میں نے ان کی چند ایسی باتیں اس کتاب میں شامل نہیں کیں جو نا شائستگی کے زمرے میں آتی ہیں اور کچھ ایسی باتیں بھی جن کا اظہار قومی مفاد میں نہیں ہے۔(جاری ہے )
کمپوزنگ: طارق عباس