اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 135
حضرت ابو عمرونخیلؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص مخلوق کے سامنے جاہ و مرتبت ترک کردینے پر قادر ہوتا ہے اس کے نزدیک ترک دنیا بھی دشوار نہیںرہتی۔ ذات خداوندی سے وابستہ رہنے والا کبھی بری خصلتوں کا مرتکب نہیں ہوسکتا اور جو بری خصلتوں کو اپنالیتا ہے وہ خدا سے وابستہ نہیں رہ سکتا۔
٭٭٭
فیروز شاہ ایک مرتبہ احمد خان خاناں سے خفا ہوگیا۔ اس نے احمد خاں کو اندھا کرنا چاہا۔ احمد خاں مقابلہ کے لیے تیار ہوا۔ احمد خاں نے انہی دنوں میں ایک شب خواب میں دیکھا کہ ایک نورانی صورت بزرگ نے اس کے سر پر تاج ترکی رکھا اور اس کو سلطنت کی بشارت دی۔ احمد خاں بادشاہ کے مقابلے میں کامیاب ہوا اور اس کو تاج و تخت نصیب ہوا۔
کچھ دنوں کے بعد حضرت نعمت اللہؒ ولی کی کرامات کا چرچا ہونے لگا۔ احمد خاں نے آپ کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہا۔ اس نے شیخ جبیب اللہ جنیدی کو کچھ تحائف دے کر آپ کی خدمت میں بھیجا۔ آُ نے تحائف قبول فرمائے۔ اس کے بعد حضرت نعمت اللہ ولیؒ نے اپنے پوتے شاہ نورا للہ بن خلیل اللہ کے ذریعے سبز رنگ کا تاج ترکی احمد خاں کو بھیجا، احمد خاں نے جب وہ تاج ترکی دیکھا تو بے چین ہوگیا۔
اس نے فوراً اس تاج ترکی کو پہچان لیا کہ یہ وہی تاج ہے جو اس کے سر پر ایک بزرگ نے رکھا تھا اور بزرگ نے اس کو دکن کی سلطنت کی بشارت دی تھی۔ اس پر احمد خاں نے آپ کے پوتے نور اللہ کی بہت تعظیم و تکریم کی۔ اس نے شاہ نور اللہ کی شادی اپنی لڑکی سے بھی کردی۔
٭٭٭
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 134 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک رات حضرت ابو الحسن خراقانیؒ نے لوگوں سے فرمایا کہ اس وقت فلاں جنگل میں ایک قافلہ لوٹ کر قزاقوں نے بہت سے افراد کو مجروح کردیا ہے لیکن یہ تعجب کی بات ہے کہ اسی شب کسی نے آپ کے صاحبزادے کا سر کاٹ کر گھر کی چوکھٹ پر رکھ دیا تھا اور آپ کو اس بات کا قطعی علم نہ ہوا اور جب یہ دونوں واقعات آپ کی بیوی کے علم میں آئے۔ تو اس نے آپ کی ولایت سے انکار کردیا اور کہا ”ایسے شخص کا ذکر ہرگز نہیں کرنا چاہیے کہ جس کو دور کی اطلاع تو ہو جائے لیکن گھر کے دروازے کا علم نہ ہوسکے۔“
لیکن آپ نے یہ جوبا دیا کہ جس وقت قافلہ لوٹا گیا اس وقت تمام حجابات میرے سامنے سے اٹھادئیے گئے تھے اور جس وقت لڑکے کو قتل کیا تھا اس وقت حجابات باقی تھے۔ جس کی وجہ سے مجھے اس کے قتل کا علم نہ ہوسکا۔
جب آپ کی بیوی نے لڑکے کا سردروازے پر دیکھا تو شفقت مادری کی وجہ سے بے چین ہوکر روتے پیٹتے ہوئے اپنےبال کاٹ کر لڑکے کے سر پر ڈال دئیے اور انسانی تقاضے کے طو رپر حضرت ابو الحسنؒ کو بھی اپنے صاحبزادے کے قتل کا رنج ہوا اور آپ نے بھی اپنی داڑھی کے بال صاحبزادے کے سر پر ڈالتے ہوئے بیوی سے فرمایا کہ یہ بیج ہم تم دونوں نے مل کر بویا تھا اور تم نے اپنے بال کاٹ کر اور میں نے اپنی داڑھی کے بال اس کے سر پر ڈال دئیے۔ اس طرح ہم دونوں برابر ہوگئے۔
٭٭٭
ایک دن حضرت ممشاد دینوریؒ نے فرمایا کہ غنودگی کے عالم میں تھا تو مَیں نے اپنے آپ کو مسجد میں دیکھا۔ کوئی کہنے والا مجھ سے یہ کہہ رہا تھا کہ اگر تو اولیاءاللہ میں سے کسی کی زیارت کا مشتاق ہے تو اُٹھ اور توبہ کے ٹیلہ پر جا۔
میں بیدار ہوا۔ اس وقت برفباری ہورہی تھی، وہاں پہنچا تو حضرت ابراہیم خواصؒ کو دیکھا جو آلتی پالتی مارے بیٹھے ہوئے تھے۔ صرف اتنی جگہ برف سے خالی تھی جہاں آپ بیٹھے ہوئے تھے۔ چاروں طرف برف کے تودے ہی تودے تھے۔ میں پسینہ پسینہ ہوگیا او راس سوچ میں پڑگیا کہ انہیں یہ درجہ کیسے حاصل ہوا ہے۔
آپ نے میری دلی کیفیت بھانپتے ہوئے فرمایا ”یہ مرتبہ فقراءکی خدمت کے صلہ میں قدرت نے مجھے مرحمت فرمایا ہے۔“
٭٭٭
حضرت شیخ بنان محمد الحمالؒ فرماتے ہیں کہ ایک دن مَیں مکہ معظمہ میں بیٹھا تھا۔ میرے پاس ہی ایک جوان تھا۔ ایک شخص نے اس نوجوان کے سامنے کچھ درہم لاکر رکھے اور کہا مجھے ان کی حاجت نہیں ہے۔
نوجوان نے کہا کہ مساکین و فقراءمیں اسے تقسیم کردو۔ اس نے اس بات پر عمل کیا۔ رات کو میں نے اسے دیکھا کہ ایک وادی میں اپنے لیے کسی چیز کی جستجو کررہا ہے۔
میں نے اس سے کہا ”کاش تو ان درہموں میں سے کچھ بچاکر رکھ لیتا۔“
اس نے جواب دیا ”مجھے کیا معلوم تھا کہ مَیں اس وق تتک زندہ بھی رہوں گا یا نہیں۔“(جاری ہے)
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 136 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں