ٹرمپ کی واپسی

    ٹرمپ کی واپسی
    ٹرمپ کی واپسی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

78 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ47ویں امریکی صدر منتخب ہو چکے ہیں۔انہوں نے آٹھ سال پہلے ہیلری کلنٹن کو شکست سے دوچار کیا تھا، ہیلری ایک تجربہ کار سیاستدان تھیں، وزیر خارجہ کے طور پر دھاک بٹھا چکی تھیں جبکہ ٹرمپ ایک ارب پتی بزنس مین تھے، سیاست میں نووارد،رنگ رنگیلے، دِل پھینک، منہ پھٹ، مذاق اڑانے اور فقرے چست کرنے والے۔عام تاثر تھا کہ ہیلری انہیں بآسانی شکست دے ڈالیں گی لیکن معاملہ اُلٹ ہو گیا۔ ٹرمپ وائٹ ہاؤس پہنچے اور ہیلری امریکہ کی پہلی خاتون صدر بنتے بنتے رہ گئیں،وہ پاپولر ووٹ زیادہ حاصل کرنے کے باوجود الیکٹورل ووٹوں میں پیچھے تھیں۔ ٹرمپ نے صدر کے طور پر اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا، وہ کسی وقت کچھ بھی کہہ سکتے اور کچھ بھی کرسکتے تھے۔اُن کے اکثر معاونین اُن سے بیزار تھے، وہ آج اُن کے ساتھ نہیں ہیں۔ٹرمپ نے بطور صدر جو انتخاب لڑا، اُس میں ضعیف العمر جوبائیڈن نے انہیں چاروں شانے چت گرا دیا۔انتخابی نتائج تسلیم نہ کر کے انہوں نے امریکی سیاست کو ایک نیا رنگ دے ڈالا،اُن کے پُرجوش حامی ایوانِ نمائندگان پر حملہ آور ہو گئے،اُن کی ہلّہ شیری نے اِن میں سے کئی کو جیل بھیج دیا۔کئی الزامات لگے، کئی مقدمات قائم ہوئے، فردِ جرم بھی عائد ہو گئی لیکن وہ کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔سپریم کورٹ نے اُن کا تحفظ کیا، انہیں الیکشن میں حصہ لینے سے روکا نہ جا سکا، وہ میدان میں آئے،جوبائیڈن نے دستبرداری اختیار کر لی اور اپنی نائب صدر کمالا ہیرس کو ڈیمو کریٹک پارٹی کی طرف سے امیدوار نامزد کر دیا۔ابتداء میں تو یہ تاثر عام تھا کہ کمالا ہیرس ٹرمپ کو لے بیٹھیں گی۔ رائے عامہ کے جائزوں میں وہ آگے بڑھتی نظر آئیں لیکن پھر ٹرمپ نے اپنا آپ منوانا شروع کر دیا۔اُن پر قاتلانہ حملے نے اُن کی مہم میں نئی جان ڈال دی۔ وہ زخمی ہو کر بھی کھڑے فتح کا نشان بناتے رہے۔ سٹیج چھوڑنے سے انکار کر دیا، اُن کی مضبوط شخصیت کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔

الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں ٹرمپ کے حامی بہت کم تھے۔ اسٹیبلشمنٹ اُن سے نالاں تھی، رائے عامہ کے جائزوں میں اُن کی برتری کا تاثر نہیں تھا،اِس سب کے باوجود انہوں نے میدان مار کر سب کو حیران کردیا۔پاپولر ووٹ بھی زیادہ حاصل کئے اور الیکٹورل ووٹ بھی زیادہ۔وہ دوسرے ایسے صدر بن گئے، جو چار سال کے وقفے کے بعد دوبارہ صدر منتخب ہوا تھا۔اُن سے پہلے ڈیمو کریٹ سٹیفن گرو کلیو لینڈ نے1885ء کے بعد 1893ء میں کامیابی حاصل کر کے چار سال کے وقفے کے بعد دوبارہ صدر منتخب ہوئے تھے۔ یہ اور بات کہ اُن کی شخصیت ٹرمپ سے مختلف تھی،اُن کے سوانح نگار کہتے ہیں کہ وہ دیانت داری، کردار کی مضبوطی اور گروہی سیاست سے بالا تر ہو کر سوچنے کی صلاحیت کی وجہ سے ممتاز تھے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی محیر العقول کامیابی کے اسباب کیا ہیں اور نتائج کیا برآمد ہوں گے،دنیا بھرکے سیاسی پنڈت اِس کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں۔کمال یہ ہے کہ انہوں نے مختلف الخیال ووٹروں کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا ہے۔مسلمان ووٹروں کی بھاری تعداد اُن سے غزہ میں جنگ بندی کی اُمید لگا رہی ہے تو نیتن یاہو بھی اُن سے توقعات لگائے ہوئے ہیں۔ گورے امریکی اُن پر فدا ہیں تو کالے بھی اُن سے جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستانی نژاد امریکیوں کی بڑی تعداد اُن کا جھنڈا اُٹھائے ہوئے ہے تو نریندر مودی بھی انہیں مبارک باد پیش کرنے میں پیش پیش ہیں۔غیر قانونی طور پر امریکہ میں رہنے والوں کو البتہ خوف لاحق ہے، ڈیمو کریٹک پارٹی کی ”آزاد خیالی“ اور اخلاقی اقدار سے عدم دلچسپی نے بھی اِس کا راستہ کھوٹا کیا ہے۔ قدامت پسند امریکی اور مذہبی حلقے ٹرمپ کو اپنی اقدار کا محافظ سمجھ رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکہ میں تارکین وطن کی بڑی تعداد اب امریکی کلچر میں جذب ہونے کی بجائے اِسے اپنے رُخ پر ڈھالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اِس لیے قدیم امریکیوں کو اپنا ملک ہاتھ سے جاتا دکھائی دے رہا ہے،اِسی لیے وہ ٹرمپ کی چھتری کے نیچے پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ ”امریکہ سب سے پہلے“۔یہ بھی توقع لگائی جا رہی ہے کہ وہ معیشت کو سنبھالیں گے۔ انہوں نے بار بار یہ دعویٰ کیا کہ وہ جنگیں ختم کرائیں گے۔ٹرمپ کیا کر سکیں گے اور کیا نہیں، اُن کا دورِ صدارت ہنگامہ خیز ضرور ہو گا،ہرروز کچھ نہ کچھ نیا دیکھنے اور سننے کو ملے گا۔کمالا ہیرس اور جوبائیڈن نے پہلی فرصت میں شکست تسلیم کر کے انہیں مبارک باد دی۔ 20جنوری 2025ء کو وہ وائٹ ہاؤس میں براجمان ہوں گے۔

پاکستانی میڈیا میں امریکی انتخابات کی بھرپور کوریج کی گئی، ٹی وی چینلز نے لائیو کوریج کا اہتمام کیا، دن رات خبریں اور تجزیے نشر ہوتے رہے۔ پاکستان سے کئی میڈیا پرسنز خصوصی کوریج کے لیے امریکہ پہنچے تو امریکہ میں مقیم پاکستانی نژاد دانشور بھی سکرینوں پر چھائے رہے۔ پاکستانی سیاست دان بھی ایک دوسرے سے الجھے رہے،یوں معلوم ہوتا تھا کہ ٹرمپ تحریک انصاف کے امیدوار ہیں اور اِس جماعت کے کئی مخالفین ٹرمپ کو اپنا مخالف سمجھ بیٹھے تھے۔ پاکستانی نژاد امریکیوں کی بڑی تعداد ٹرمپ کے ساتھ جڑی ہوئی تھی اور اُن کے ذریعے عمران خان کی رہائی کے خواب دیکھ اور دکھلا رہی تھی۔

تحریک انصاف کے جملہ متعلقین و متوسلین کو اُمید ہے کہ ٹرمپ عمران خان کی رہائی کے لیے کردار ادا کریں گے جبکہ حکومتی حلقے اِسے خوش فہمی قرار دے کر اپنے حامیوں کو تسلیاں دے رہے ہیں۔یہ بات نظر انداز کی جا رہی ہے کہ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے ہیں،پاکستان کے نہیں۔اُن سے جو بھی توقعات لگائی جائیں، عمران خان اور اُن کے مخالفوں کو ازسرِ نو حالات کا جائزہ لینا چاہیے۔امریکی سیاست سے یہ سبق سیکھنا چاہئے کہ جمہوریت میں فیصلے کا حق عوام کو ہوتا ہے۔ووٹ کے ذریعے کیا جانے والا احتساب ہی موثر اور نتیجہ خیز ہو سکتا ہے، دوسرا یہ کہ آزادانہ اور شفاف انتخابات کے ذریعے ہی ملکوں کو استحکام نصیب ہوتااور قوموں کا اپنے آپ پر اعتماد بحال رہتا ہے۔ انتخابی دھاندلی سے ریاست اور عوام کے درمیان پیدا ہونے والی بداعتمادی، کوئی بھی ستم ڈھا سکتی ہے۔

جناب الطاف حسن قریشی کو صدمہ

پاکستان کے ممتاز ترین اخبار نویس اور ایڈیٹر جناب الطاف حسن قریشی کی اہلیہ محترمہ شاہدہ صاحبہ گذشتہ دِنوں لاہور میں انتقال کرگئیں۔دونوں کا ساتھ نصف صدی سے زیادہ کو محیط تھا۔الطاف صاحب نے اُن کی یاد میں ایک دلدوز کالم لکھا ہے جس کا عنوان یہ ہے: یا اللہ مجھے صبر جمیل عطاء کر۔ اُن کی اِس دُعا میں ہر شخص کو شریک ہونا چاہیے۔ اِس دیرینہ رفاقت کے خاتمے نے الطاف صاحب کی زندگی میں جو خلاء پیدا کر دیا ہے وہ کبھی نہ بھرنے والا ہے۔ اُن کی اہلیہ ایک بڑے دینی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔اُن کی مسکراہٹ اور خوش مزاجی سے ہر وہ شخص متاثر ہوتا جسے اُن سے ملاقات کا موقع ملتا۔الطاف صاحب کے الفاظ میں: وہ قرآن کے حوالے سے منعقد ہونے والی تقریبات میں بے پناہ ذوق و شوق سے حصہ لیتیں اور نعت ضرور پڑھتی تھیں۔’پاک انجمن خواتین‘ کی ممبر تھیں جو ہمارے دوست احسن اقبال کی والدہ محترمہ نثار  فاطمہ نے عشروں پہلے قائم کی تھی۔اُس کے تحت لڑکیوں کا مدرسہ قائم کیا۔اِس انجمن کا اجلاس ہر ماہ کے پہلے ہفتے ہوتا ہے،وہ اُس میں باقاعدگی سے شرکت کرتی تھیں۔اُنہوں نے 30اکتوبر کی شام محترمہ سلمیٰ ضمیر کو فون کیا کہ مجھے دو نومبر کو اپنے ساتھ لے کر جانا۔اُنہیں کیا خبر تھی کہ اُن کی موت کا پروانہ جاری  ہو چکا ہے۔ قرآن ہی کے حوالے سے اُن کا عظیم خاتون محترمہ رخسانہ اظہار سے بھی غیر معمولی رشتہ استوار تھا۔ میں اب اِن یادوں کی پتیاں چُنتے رہنے کے لیے رہ گیا ہوں اور آنسو ہیں کہ تھمتے ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور مجھے صبر جمیل کی دولت سے مالا مال کر دے۔

(یہ کالم روزنامہ ”پاکستان“ اور  روزنامہ ”دُنیا“ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

مزید :

رائے -کالم -