میری سِیٹ، میری مرضی
عنوان کا اشارہ متنازعہ پارلیمانی نشستوں کی طرف نہیں۔ اِس کے برعکس آج اُس واقعے کو چار سال ہو گئے ہیں جب لاہور سے راولپنڈی تک ڈائیوو میں میری ہم سفر دو خواتین پونے پانچ گھنٹے کی مسافت میں بالکل چُپ بیٹھی رہیں۔ پس منظر کو سمجھنے کے لیے آپ کو ’گولڈ‘ رُتبے کی حامِل اُس اعلی نسب کوچ کی اندرونی جھلک دیکھنا ہو گی جہاں ہر قطار میں داہنے رُخ پر دو دو ملحقہ سِیٹیں اور بائیں جانب ایک ایک نشست ہوتی ہے۔ میری ٹکٹ پر سترہ نمبر درج تھا، اس لیے مَیں روانگی سے پندرہ منٹ پہلے ڈبل سِیٹ پر اُلٹے ہاتھ بیٹھ گیا۔ اب اپنے سامنے کو شمال تصور کروں تو مشرق میں سولہ نمبر سِیٹ ہوائی جہاز کی طرز پر میرے ساتھ جُڑی ہوئی تھی۔ مغرب میں الگ تھلگ اٹھارہ نمبر مجھ سے کوئی تین فٹ کے فاصلے پہ ہوگی۔ چند لمحوں میں ایک خاتون میرے سیدھے ہاتھ کی سیٹ پر آ بیٹھیں۔ مَیں ایک رسالے اور تین تازہ اخباروں کی زرہ بکتر پہن کر آیا تھا تاکہ سیاسی، معاشی اور دینی مسائل پر بحث کی یلغار سے بچا رہوں۔
روانگی میں دو منٹ ہوں گے کہ سنگل سِیٹ کے پاس دو اَور خواتین کی موجودگی کا احساس ہونے لگا۔ ایک تو کوچ کی ہوسٹس تھیں اور دوسری جیسے نوعمری کی آخری حدود میں کسی غیر ملکی یونیورسٹی کی پوسٹ گریجوایٹ اسٹوڈنٹ ہوں۔ ”نمبر ایٹیِن میری ہے“ اسٹوڈنٹ نے سنگل سِیٹ کی طرف اشارہ کیا۔ اِس پر میرے ساتھ والی قدرے معمر خاتون نے سولہ نمبر ٹکٹ دکھا کر ہوسٹس کے کان میں کچھ کہا اور انگلی میری سمت میں ہلائی۔ جہاندیدہ انسان بھانپ گیا کہ یہ دونوں خواتین کو جُڑی ہوئی ڈبل سیِٹ پر اور مجھے اکیلی نشست پر بٹھانے کی تجویز ہے۔ رکاوٹ نہ ڈالنے کے انداز میں گزارش کی: ”آپ جو بھی فیصلہ کریں مجھے منظور ہے۔“ اب جو ہوسٹس کے ایما پر سنگل سیٹ پہ بیٹھنے لگا ہوں تو مہذب اسٹوڈنٹ رُعب سے بولیں: ”یہاں کیوں؟ یہ تو میری سیٹ ہے۔“ ”جی ہاں، اجازت کے بغیر نہیں بیٹھوں گا۔“
میرے چُپ ہو جانے پر خواتین نے سیٹوں کا مسئلہ بالآخر ہوسٹس کی تجویز کے مطابق طے کر لیا۔ پھر بھی سولہ، سترہ اور اٹھارہ نمبر کے درمیان ایک دبا دبا سا کھچاؤ محسوس ہو رہا تھا جیسے کہیں نہ کہیں کوئی گڑبڑ ہو گئی ہو۔ شائستہ فیچر فلم کی طرح ہم میں سے کوئی اونچی آواز میں بولا نہ بحث نے طول کھینچا۔ مَیں اطمینان سے ایک طرف ہو کر الگ سِیٹ پر بیٹھ گیا اور دونوں عورتیں جُڑی ہوئی نشستوں پر۔ نوجوان خاتون اپنے لَیپ ٹاپ پر بظاہر سکون سے کام کرتی رہیں۔ بے سکونی ہوگی تو شاید صرف اِس پہلو سے کہ مخصوص نمبر کا ٹکٹ رکھتے ہوئے بھی سیٹ بدلنے پر زور دے کر اُن کے حق کی نفی کیوں کی گئی۔ اُدھر، میرے گمان میں بڑی عمر و الی صاحبہ نے گھر پہنچ کر شاید کہا ہو کہ توبہ توبہ، عجیب لڑکی تھی جو اتنا بھی نہیں سمجھ سکی کہ دونوں عورتوں کو ساتھ ساتھ بیٹھنا چاہیے اور غیر مرد کو اکیلی سیٹ پر۔
ہم نشیں خواتین سارا وقت خاموش رہِیں، مگر ایسا بھی نہیں کہ اِس چپ چپیتے سفر میں میڈیم ویو یا ایف ایم پر کوئی بھی ٹرانسمیشن سنائی نہ دی ہو۔ میرے پیچھے کچھ فاصلے پر قوم کی تعمیرِ نو میں مصروف ایک جوڑا اپنے لختِ جگر کو ریکارڈڈ میوزک کی مدد سے اے، بی، سی سکھاتا رہا۔ اُن سے ہٹ کر ایک افسر ٹائپ آدمی موبائل پر محکمانہ پروموشن اور پوسٹنگ کے مسائل ڈسکس کر رہا تھا۔ دُور سے سنائی دینے والی دھیمے لہجے کی زنانہ گفتگو جوائنٹ فیملی میں رہنے کی افادیت کے بارے میں تھی۔ ”مَیں تو پیرنٹس کے گھر جاتی ہوں تو بچے آنٹی کے پاس ہی ہوتے ہیں، مطلب ہے عبید کی امی کے پاس، اور خوش رہتے ہیں۔“ ”بیٹا، آپ بہت لکی ہیں جو ایسے ساس سسر ملے۔“ بات چیت کے دوران جب جب کوئی طویل وقفہ آتا، میرے خیالوں میں بچپن کی ریل گاڑی کی فضا ہولے ہولے تھرکنے لگتی، جہاں:
کسی نے یوں گھریلو زندگی پر زور ڈالا ہے
کہ جیسے اگلے اسٹیشن پہ رشتہ ہونے والا ہے
اُن دنوں زنانہ کمپارٹمنٹ کے باہر مسافروں کی رہنمائی کے لیے عورت کی تصویر بنی ہوتی، اس لیے کہ عمومی شرحِ خواندگی انتہائی پست تھی۔اِن حالات میں خواتین میں اپنی سِیٹ سے وابستہ ماڈرن حقوق کا شعور کیا ہوتا؟ اُن کے تو ٹکٹ اور بعض حالتوں میں پیسے تک باپ، شوہر یا بھائی کی جیب میں ہوتے جو اسی ٹرین کے مردانہ ڈبوں میں محوِ سفر ہوا کرتے۔ ابا سے سُنا ہوا یہ واقعہ کبھی نہیں بھولتا کہ پاکستان بننے سے پہلے ایک مرتبہ وہ ہماری دادی کو ساتھ لے کر بذریعہ ٹرین سیالکوٹ سے جموں پہنچے۔ گاڑی رُکی تو دیکھا کہ زنانہ ڈبے سے ماں غائب ہیں۔سارا اسٹیشن چھان مارا، ریلوے سٹاف سے پوچھا، ٹوائلٹ تک چیک کیے اور تھک ہار کے بے یار و مددگار تانگہ پکڑ کر پھوپھی زاد بہن کے گھر ریذیڈنسی روڈ کی طرف چل پڑے۔ آدھے راستہ میں کیا دیکھتے ہیں کہ والدہ اپنے چھوٹے بیٹے کو انگلی سے لگائے شہر کی طرف تیز تیز قدم اٹھاتی جا رہی ہیں۔ پھر کیا ہوا؟
پہلے تو ڈرامائی مکالمہ ہوا۔۔۔ ”بی جی، آپ نے تو میری جان نکال دی تھی۔“ ”نذیر، شکر ہے اللہ کا کہ تم مل گئے۔“ تانگے میں سوار ہو کر ذرا حواس بحال ہوئے تو بتانے لگیں کہ جب ٹرین چلی تو تم پلیٹ فارم پر چائے پی رہے تھے۔ ایک زنانہ سواری نے کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے کہا ”بہن، تمہارا لڑکا تو وہیں کا وہیں رہ گیا، گاڑی پہ چڑھا ہی نہیں۔“ اب بی جی سخت پریشان کہ جموں پہنچ کر ٹکٹ کے بغیر باہر کیسے نکلیں گی۔آخر ایک عورت نے اسٹیشن کا وہ حصہ دکھا دیا جہاں لوہے کی سلاخوں کے بیچ میں جھُک کر باہر نکل جانے کے لیے ایک نیم خفیہ سا راستہ تھا۔ ابا کہتے ہیں کہ جس طرح ساڑھے تین ہارس پاور کی جھٹکے دار موٹر سائیکل سے اتر کر بھی آدمی آدھ گھنٹہ تک ہلتا رہتا ہے، اسی طرح باقی کا سارا دن بی جی یہ سوچ سوچ کر کانپتی رہِیں کہ اگر ٹکٹ چیک ہو جاتا تو میری کیا عزت رہتی۔
زنانہ ڈبوں میں قید یوں کی مانند سفر کرنے والی بڑی بوڑھیوں اور اپنی مرضی کی سنگل سیٹ پر بیٹھنے پہ مُصر ہماری لڑکیوں کے درمیان کچھ نہیں تو دو نسلوں کا فاصلہ ہے۔ مَیری بیوی اور بیٹی نے کہانی سُن کر ڈائیوو والی لڑکی کی حمایت کی کہ اُسے لَیپ ٹاپ پر کام کرنا تھا۔ مگر دونوں نے یہ بھی کہا کہ ”عام حالات میں کسی ڈِیسنٹ آدمی کے ساتھ بیٹھا جا سکتا ہے۔“ تو ڈِیسنٹ آدمی کون ہوا؟ کراچی سے اسلام آباد کی پرواز روانہ ہونے لگی تو میری نوعمر بھانجی نے دیکھا کہ تین والی سِیٹ پر ایک انکل عین درمیان میں تشریف فرما ہیں اور آنٹی اُن کے الٹے ہاتھ کھڑکی کے ساتھ۔ اکیلی لڑکی نے کہا: ”اگر آپس میں جگہ بدل لیں تو آنٹی بیچ میں ہو جائیں گی اور مَیں اُن کے دائیں۔“ ”بالکل نہیں، وِنڈو سیٹ میری ہے۔“یہ عمر رسیدہ آنٹی کا جواب تھا۔ گویا ’ڈِیسنٹ کون‘ والا سوال عمر یا صنف کا مسئلہ نہیں۔ مسئلہ ہے میری سِیٹ، میری مرضی۔