تحریک پاکستان پھر چل پڑی
اگست کا مہینہ قیام پاکستان کا مہینہ ہے،77برس پہلے اسی ماہ کی 14اگست کو ہندوستان نامی ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ایک حصے میں ہندو اکثریت کو حکومت کا حق دیا گیا تو دوسرے میں مسلمان اکثریت نے اسے حاصل کر لیا۔ہندوستان انگریز حکمرانوں کے تحت وحدت کا روپ دھار چکا تھالیکن تاریخی طور پر کم ہی مواقع ایسے آئے ہیں کہ جب پنجاب سے دکن تک اور بنگال سے ممبئی تک ہندوستان میں ایک ہی حکومت قائم ہوئی ہو۔مسلمانوں کے دورِ حکومت میں جو سینکڑوں سال کو محیط تھا،ہندوستان کے وسیع علاقے ایک لڑی میں پرو دیے گئے تھے،اِس کے باوجود خود مختار ریاستیں موجود تھیں۔ انگریزوں کے عہد میں بھی ”برطانوی ہندوستان“ کے ساتھ ساتھ کم و بیش565 ریاستیں داخلی خود مختاری کی حامل تھیں۔ خزانہ، خارجہ، دفاع اور مواصلات کے علاوہ باقی امور میں اُن ریاستوں کو آزادی حاصل تھی، اُن پر راجے، مہاراجے یا نواب حکمران تھے۔برطانوی ہند ان کے داخلی امور سے اپنے آپ کو الگ رکھتا تھا، وہ جمہوری عمل جو برطانوی ہندوستان میں شروع ہوا، دیسی ریاستوں تک اِس کے اثرات کم کم ہی پہنچے۔
تحریک آزادی کامیابی سے ہمکنار ہونے لگی تو متحدہ ہندوستان کے لیے آئین کی تیاری پر غور شروع ہوا۔کینٹ مشن پلان نے تین گروپوں میں ہندوستان کو بانٹنے کا منصوبہ پیش کیا،ہندو اور مسلم اکثریتی علاقوں کے الگ الگ گروپ بننا تھے،دیسی ریاستوں کا گروپ الگ ہونا تھا، مرکزی سطح پر تینوں کی نمائندگی سے ہندوستانی وفاق کی تشکیل ہونا تھی۔یہ منصوبہ تسلیم کر لیا گیا، کانگرس، مسلم لیگ اور ریاستوں نے اِس سے اتفاق کر لیا لیکن پنڈت جواہر لال نہرو کے اِس بیان نے کہ یہ گروپنگ مستقل نہیں ہو گی،مرکزی اسمبلی وجود میں آجائے گی تو وہ اِس میں ردوبدل کر سکے گی، نقشہ بدل دیا۔مسلم لیگ کے لیے یہ قابل ِ قبول نہیں تھا، سو گروپنگ سکیم اوندھے منہ گر گئی اور تقسیم تک نوبت پہنچی۔ہندو اور مسلم اکثریتی علاقوں کی حد بندی کے لئے ریڈ کلف کمیشن قائم کیا گیاجبکہ ریاستوں کے حکمرانوں کو مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار مل گیا کہ وہ دونوں مملکتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں۔
اِس کے بعد جو کچھ ہوا اُس کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جا سکتی۔ برطانوی وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی جلد بازی نے فسادات کو جنم دیا اور کاروانِ آزادی کو خون اور آگ کے دریا عبور کرنا پڑ گئے۔کانگرس، مسلم لیگ اور برطانیہ کے درمیان طے پایا تھا کہ دو مملکتوں کے علاوہ کوئی آزاد یا خود مختار خطہ وجود میں نہیں آئے گا۔ہندو اکثریت کے علاقوں میں مسلمان اقلیت کو اور مسلمان اکثریت کے علاقے میں ہندو اور سکھ اقلیت کو موجود رہنا تھا۔انتقالِ آبادی کا کوئی منصوبہ تھا، نہ اِس پر کسی اعلیٰ سطحی اجلاس میں کوئی سوچ بچار کی گئی۔نئی مملکتوں کو ایک دوسرے کا دشمن بن کر نئے سفر کا آغاز نہیں کرنا تھا،ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھنا تھا، بدقسمتی سے یہ خواب چکنا چور ہو گیا۔دونوں ملک ایک دوسرے کے مقابل صف آراء ہوئے، یہاں تک کہ ہندوستان نے پاکستان کو جو مغربی اور مشرقی حصوں میں بٹا ہوا تھا، تقسیم کرنے کے لیے جال پھیلانا شروع کر دیا۔ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے بیج مغربی پاکستانی زبردستوں اور سیاستدانوں کی کوتاہ نظری سے برگ و بار لاتے چلے گئے، یہاں تک کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔بھارتی جارحیت نے اسے ممکن بنایا اور مغربی پاکستان کو منہ کی کھانا پڑی۔
شیخ مجیب الرحمن مغربی پاکستان میں قید تھے،ذوالفقار علی بھٹو نے ”نئے پاکستان“کا نظم و نسق سنبھالا تو شیخ صاحب کو آزاد کر کے لندن پہنچا دیا گیا، وہاں سے وہ بنگلہ دیش پہنچے اور اقتدار سنبھال لیا لیکن تین ہی سال بعد اُن کی اپنی فوج نے اُنہیں ہلاک کر ڈالا۔اُنہوں نے جو یک جماعتی آمریت قائم کی تھی، وہ ریزہ ریزہ ہو گئی۔اُس کے بعد میجر جنرل ضیاء الرحمن اور حسین محمد ارشاد کی حکومتیں قائم ہوئیں اور بنگلہ دیش کا مسلم تشخص بحال ہوتا چلا گیا۔ پاکستان سے اُس کے تعلقات بھی معمول پر آتے گئے۔یہاں تک کہ شیخ مجیب الرحمن کی سیاسی جانشین اُن کی بیٹی حسینہ واجد نے 2008ء میں اپنے پنجے گاڑ دیئے۔ بھارت کے خفیہ اداروں کی سرپرستی اُن کو حاصل تھی اور وہ اُنہی کے زیر اثر کام کر رہی تھیں۔ کم و بیش 15برس تک انہوں نے اپنا دبدبہ قائم رکھا۔ اپنے مخالفین کو پھانسیاں دلوائیں، جماعت اسلامی پر پابندی لگی،اپنی حریف ِ اول بیگم خالدہ ضیاء الرحمن کو حوالہ ئ زنداں کیا، ہزاروں افراد گرفتار کئے گئے، پولیس مقابلوں میں مار ڈالے گئے یا غائب کر دیئے گئے۔ ریاست کے ہر ادارے کو انہوں نے غلام بنا لیا، بنگلہ دیش قید خانہ بن کر رہ گیا۔معاشی ترقی کے ’ڈھنڈورے‘ پیٹے جانے لگے، وزیراعظم نریندر مودی بنگلہ دیش کے قیام کی گولڈن جوبلی تقریبات میں شرکت کے لیے ڈھاکہ پہنچے تو ڈنکے کی چوٹ اعلان کیا کہ ”آزادی“ ہم نے دلوائی ہے،حسینہ واجدنے بھی مہر لگا دی کہ اُن کے والد نے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو توڑنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ”اعترافِ جرم“ نے تاریخ کا رُخ بدل ڈالا، بنگلہ دیش کے قیام سے جڑے تمام بیانیے اُس کے سامنے ماند پڑ گئے۔چند روز پہلے بنگلہ دیشی طلبہ کی قیادت میں قوم نے جس طرح بغاوت کی، 26سالہ طالب علم ناہیداسلام نے جس طرح بہادرانہ کردار ادا کیا، نوجوانوں کی فوج نے جس طرح یلغار کی، حسینہ واجد کو جس طرح بھاگنے پر مجبور کیا،اِس سب نے اہل ِ پاکستان کو تاریخ کا جائزہ لینے کا ایک اور موقع فراہم کر دیا۔ اُن کی غلطیاں، کوتاہیاں اور حماقتیں اپنی جگہ لیکن بنگلہ دیش میں مسلم نیشنلزم کی تازہ لہر نے ایک بار پھر تحریک پاکستان کی افادیت اور اہمیت واضح کر دی، وہاں تحریک پاکستان زندہ دکھائی دینے لگی۔
چند روز بعد 26سالہ نوجوان ارشد ندیم نے کھیل کے میدان میں عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستانی قوم کو نئی زندگی بخش دی، لڑتے بھڑتے پاکستانی ایک ہو گئے اور اپنے نوجوان ایتھلیٹ کے لیے زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ سیاسی محاذ آرائی دم توڑ گئی اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے،ارشد ندیم کے ساتھ جڑ کر ایک دوسرے سے بھی جڑ گئے۔ پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر میاں چنوں کے رہنے والے اِس نوجوان نے ایک محنت کش کے ہاں آنکھ کھولی، کسی سرکاری سرپرستی کے بغیر، اپنی محنت اور ہمت کے بل پر آگے بڑھتا گیا، یہاں تک کہ وہ کچھ حاصل کرلیا جو گزشتہ ایک سو سال میں کوئی حاصل نہ کر سکا۔
ارشدندیم آج قوم کا ہیرو ہے،اُس کی زبان پر پاکستان کا نعرہ ہے اور پاکستانی قوم بھولا ہوا سبق از سرِ نو یاد کر رہی ہے۔ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا؟ ہر شخص ارشد ندیم بن جائے تو پاکستان کو آگے بڑھنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے والو اور ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے والو، اپنا اپنا کام کرو، اُس پر پورا دھیان دو تو تم بھی عالمی ریکارڈ قائم کر سکو گے۔ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کرتے اوراپنا کام بھولتے رہے تو ناکام و نامراد ہو جاؤ گے۔۔۔ ارشد ندیم کی شکل میں اور بنگالی نوجوان ناہید اسلام کی شکل میں تحریک پاکستان پھر چل پڑی ہے۔۔۔دوڑو، بھاگو، اِس میں شامل ہو جاؤ۔
(یہ کالم روزنامہ ”پاکستان“ اور روزنامہ ”دُنیا“ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)