دن رات کے دریچوں پہ دی جس نے دستکیں ۔۔
دسمبر چلا گیا
اے قلب سوگوار دسمبر چلا گیا
کر ختم انتظار دسمبر چلا گیا
ہیں پھر سے ساتھ میرے یہ تنہاٸیاں مری
اور تنہا رہ گزار دسمبر چلا گیا
اک ایک کر کے گزرے مرے سارے رفتگاں
اور ساتھ خوشگوار دسمبر چلا گیا
امید تھی سکوں ملے گا اس مہینے میں
پہ کر کے بے قرار دسمبر چلا گیا
رک پائی نہیں بہتے ہوئے موسموں کی مثل
آنکھوں کی آبشار دسمبر چلا گیا
خود کو سنبھال اس کے سبھی عہد بھول کر
یہ روز و شب سنوار دسمبر چلا گیا
ہو پایا نہیں ختم ترا انتظار اور
اے یار طرح دار دسمبر چلا گیا
دن رات کے دریچوں پہ دی جس نے دستکیں
ہنستا ہوا اے یار دسمبر چلا گیا
نا جانے کس دیار محبت کی رت گئی
نا جانے کس دیار دسمبر چلا گیا
ٹھہری ہوئی آنکھ کے منظر میں رکھ کے آج
تنویر جوئبار دسمبر چلا گیا
کلام :تنویر سیٹھی