’’وہ لڑکی جس کے ساتھ ایک جنّ نے شادی کرلی تھی‘‘۔۔۔ قسط نمبر 2
قسط نمبر 2
مغرب کی اذان کا وقت ہورہاتھا۔ ہم نے واپسی کی اجازت لی توانہوں نے اگلی شام دوبارہ آنے کی ہدایت کیساتھ ہی ہمیں الوداع کہا ۔ہم نے ان کے غریب خانے سے نکلتے ہی اپنی اپنی راہ لی ، وہ دونوں بہنیں اپنے گھر کو روانہ ہوئیں تو میں بھی اپنے ٹھکانے کیلئے چل پڑا۔
ابھی راستے میں تھا کہ موبائل فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ فون نکالا تو سکرین پر ماوراکا نمبر تھا۔فون سنا تو وہ بہت ڈری ہوئی تھی اور اپنی طبیعت ایک مرتبہ پھر بگڑنے یعنی جنات حاضر ہوجانے کا بتانے لگی ۔ساتھ ہی درخواست کی کہ پیرصاحب سے رابطہ کریں اور جلد پھر مجھے فون کریں، اگر فون نہ سن پاؤ ں تو تب بھی مجھ سے ٹیلی فونک رابطے کی کوشش میں رہنا۔
جواباً میں نے اسے پیرصاحب سے خودرابطہ کرنے یا اُن کے ہاں فور ی دوبارہ جانے کامشورہ دیا تووہ بولی’’میں اب اکیلی ہوں، آپ کچھ بھی نہ کریں ، بس صرف ٹیلی فون پر میرے ساتھ رہیں‘‘ فون پر اسکی عجیب وغریب سی آوازیں بھی سنائی دیں ۔ تاہم اس دوران اس نے گاہے بگاہے کچھ نہ کچھ بول کر شایداپنا دھیان بٹانے کی کوشش کی تھی۔لیکن میری سانس خشک ہوچکی تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب کیا کروں۔ ایک لمحے کیلئے یہ خیال بھی آیا کہ ٹیلی فون کال منقطع کرکے اپنافون ہی بند کردوںَ اسے کچھ ہوگیا تومیرے لیے مشکل بن سکتی ہے لیکن اگلے ہی لمحے جب یہ خیال آیا کہ وہ اکیلی ہے اور مجھ سے صرف ٹیلی فون کال سننے کی استدعا کررہی ہے تو اسکی بات ماننے میں کیا ہرج ہے۔لیکن دوسرے ہی لمحہ یہ خیال ذہن سے نکال دیا۔
میں نے ماورا سے رابطہ منقطع کرکے بے زاری سے ملک محمد بشیر سہروری قادری سے رابطہ کیاتواُنہوں نے کہا کہ کچھ وقت اب یہ تکلیف تو برداشت کرنا ہی پڑے گی،اگرکسی کو ہم چھیڑیں گے اور اپنی منوانے کی کوشش کریں گے تو جواباً وہ بھی ہاتھ پاؤں تومارے گا، ان کا جواب سناتو مزید کسی سوال کی ہمت نہیں ہوئی ۔ اگلے روز میں اپنی ڈیوٹی سے فراغت ملتے ہی ماورا کے ہاں پہنچ گیااور اس کی کزن کے ہمراہ دوبارہ پیرصاحب ملک محمد بشیر سہروری قادری کے پاس پہنچ گیا۔ ان سے درخواست کی کہ اگر ممکن ہوتوآپ مریضہ کو اس کے گھر پرہی دم کردیاکریں کیونکہ خواتین کیلئے اکیلے آنا مشکل ہوتاہے لیکن انہوں نے کسی کے گھر جانے سے صاف انکار کردیا ،نہ صرف انکار کیا بلکہ اچھی خاصی سنابھی دیں ۔ پھر پہلے دن کی طرح دم شروع کردیا۔ آج بھی ماورا کی طبیعت خراب ہوئی لیکن وہ پہلے دن کی نسبتاً ادب سے گفتگو کررہی تھی۔ حاضری کے دوران جنات نے ماورا کی زبانی بتایاکہ وہ سیالکوٹ کے ایک قبرستان میں موجود بوہڑ کے درخت (جہاں سے ماورا واقف تھی اور اس کا بچپن گزرا تھا)سے آئے ہیں، جہاں یہ بچپن میں کھیلاکرتی تھی لیکن یہ ہمیں اکیلاچھوڑ کر لاہور آگئی، ہم اسے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آئے ہیں ، حاضرہونیوالے جنّ نے اپنانام بھی بتایا جو مذہبی عقیدے کے لحاظ سے مسیحی تھا۔
ملک محمد بشیر سہروری قادری نے اسکو کہا کہ وہ ماورا کو چھوڑ دے لیکن وہ نہ ماناتو ابتدائی طورپراسے اس کے پیغمبرکا واسطہ دے کر واپس بھیج دیاگیا۔ پہلے روز کی طرح ماوراپھرکچھ دیر کیلئے نیند کی آغوش میں چلی گئی اور پھر اٹھ بیٹھی۔ اب اس کو بھی شاید اس مرحلے کا اندازہ ہوچکا تھا اور چہرے پر کوئی حیرانی نہیں تھی ۔
اس دن بھی ایک دن کے وقفے سے آنے کی ہدایت ملی ۔ ملک محمد بشیر سہروری قادری نے دوٹوک الفاظ میں کہا’’ اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ مستقلاً ابھی جان چھوڑدے گا تو ممکن یہ آسان نہ ہو۔غیر مسلم جنات آسانی سے جان نہیں چھوڑتے ، انہیں شرافت کی زبان سمجھ نہیں آتی اور ہم انہیں جلانے کے حق میں نہیں کیونکہ روز محشر ان کو جلانے کا بھی حساب دینا پڑے گا ، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ہی مخلوق ہیں ‘‘ میں انکی منطق کچھ سمجھا اور کچھ نہ سمجھا ۔ خیر ایک دن کے بعد ماورا کسی اور کیساتھ پیرخانے جاپہنچی جہاں اُنہوں نے دم کیا تو پہلے حاضرہونیوالے عیسائی جنّ کی بجائے اب ایک ہندوجنّ حاضر ہوگیا ۔وہ ماورا کو دکھائی بھی دیا۔حیران کن بات یہ تھی کہ اس جنّ نے بھی وہی پہلے والی کہانی دہرائی ۔
یہی وہ دن تھا جب انکشاف ہوا کہ یہ کوئی ایک، دو نہیں بلکہ جنات کا پوراگروہ ہے جو ایک جگہ پر رہتے ہیں اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں ، آتے جاتے ہوئے ان میں سے ہرکوئی بھی ماورا کو تنگ کرنے پہنچ جاتا ہے اور وہ اسے اپنی بیوی بنا کر رکھنا چاہتاہے ۔ جنات کا دعویٰ تھا کہ وہ ان کے نکاح میں ہے، حق زوجیت بھی ادا کرتے ہیں جس کی تصدیق ماورا نے بھی کی ۔
ماورا کے بقول بعض اوقات جنات آنے کے بعد اسکو غسل کی ضرورت پڑجاتی تھی ۔دم کا ایک سلسلہ چل نکلا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جنات نے بھی زیادہ تنگ کرناشروع کردیا ۔ پہلے وہ ہفتے میں ایک آدھ دن آتے لیکن ماورا کو پہلے ہی ان کی آمد کا احسا س ہوجاتاتھا تو وہ اپنی طبیعت کے بگاڑ کودیکھتے ہوئے کسی اکیلے کمرے میں چلی جاتی تاکہ اسے زیادہ تکلیف نہ سہنی پڑے۔ اب چونکہ جنات کو بھگانے کی کوششیں شروع ہوچکی تھیں توجواب میں وہ بھی چھیڑ چھاڑ سے باز نہیں آرہے تھے۔
اب ایک نئی پریشانی یہ کھڑی ہوگئی تھی کہ وہ کسی بھی وقت تنگ کرنے پہنچ جاتے تھے ،ماورا کو پیر صاحب کے ریفرنس سے ہی ایک اورگھرمیں منتقل کرنے کا فیصلہ کیاگیاجہاں ان کی ایک مرید بھی رہتی تھی اور وہ بھی ہلکاپھلکا دم درود کرلیتی تھی،ایک دودن بعد ماورا کوضروری سامان سمیت رہائشی پلازہ کے اس نئے گھر میں منتقل کردیاگیا، جہاں ابتدائی تعارف کے بعد گھر کی کرایہ دار مالکن کوماورا کی صورتحال بارے آگاہ کیا گیا۔
چندہی دنوں میں ماورا نے نئے گھر میں ایڈجسٹ کرلیا تھا لیکن اس پر جنات کا سایہ بدستور موجود تھا۔اب طبیعت بگڑنے پر وہ خاتون اتنا کرلیتی تھی کہ جنات تھوڑی دیر گپ شپ کرنے کے بعد وہاں سے چلے جاتے تھے۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں )