بکھرتے روز ہیں افکار کانپ اٹھتی ہوں۔۔۔
بکھرتے روز ہیں افکار کانپ اٹھتی ہوں
نظر تو پھیر لے اک بار کانپ اٹھتی ہوں
میں جی رہی ہوں ترے عشق کی تمنا میں
کبھی جو سوچ لوں انکار کانپ اٹھتی ہوں
لگے ہیں جھوٹ کے انبار جو مرے آگے
ہیں سچ کی راہ میں دیوار کانپ اٹھتی ہوں
امید اب تو وفا کی مجھے نہیں تجھ سے
سنوں جو میں تری تکرار کانپ اٹھتی ہوں
گزرتے تھے مرے دن جن کے سائے میں ہم دم
جو گرتے ہیں وہی اشجار کانپ اٹھتی ہوں
جہاں کے ظلم تو سارے سہے میں نے ہم دم
مگر جو تو کرے دلدار کانپ اٹھتی ہوں
چھپا کے راز نظر کے میں معتبر تو ہوں
کہیں جو کھل گئے اسرار؟ کانپ اٹھتی ہوں
کلام : سامعہ افتخار ( فیصل آباد )