اللہ کی ”قدرت“

اللہ کی ”قدرت“
اللہ کی ”قدرت“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کیا زندگی واقعی موت کی وادیوں میں فقط ایک آواز کا نام ہے؟نہیں!یہ تازہ دم آتی اور بے سمت دیواروں سے ٹکرا کر زندہ سلامت وہیں چلی جاتی ہے جہاں سے آئی تھی۔یہ دریا کی لہروں کی مانند ہے جس کا بہاؤ کبھی رکتا نہیں زندگی ہی زندگی،ابھی کل کی بات ہے ایک جوان ہمت فرد بلکہ”مرد“ہم میں اپنی بھر پور مسکراہٹوں کے ساتھ موجود تھا،جانے اس کے من میں کیا آئی کہ فرشتہ قضاء کی انگلی پکڑی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان دیکھی دنیا کو چل دیے۔میرے محسن شفیق استاد با کردار،با اصول،روشن دماغ،شرافت کا پیکر،باوقار شخصیت،قبلہ قدرت اللہ چوہدری صاحب صحافت کا ایک جانا پہچانا نام!حوالہ نہیں اجالا بھی،درویش صحافی روتے ہوئے اس دنیا میں آئے اور خود مسکراتے مگر دنیا کو رولاتے ہوئے ملک عدم میں جا بسے کوچہ ء صحافت میں پانچ دہائیوں تک سر گردان رہے انہوں نے اپنا دامن کانٹوں سے نہیں الجھایا صاف ستھری زندگی گزاری اور صاف ستھری موت مرے۔ایک بے لوث انسان،جس نے دوستوں اورشاگردوں کو دیا تو بہت کچھ،مگر کسی سے لیا کچھ بھی نہیں مفادیا عناد کے بندوں سے مصلحت روا رکھی نہ مصالحت!ہمیشہ حق حق کہا اور منہ پر کہا قلم کی عزت اور عظمت کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا وہ روز اول سے اپنے ضمیرکی عدالت میں بک گئے ہوئے تھے  لہذا کوئی بے ضمیر بازار صحافت میں ان کا سودا نہ کر سکا۔کوئی مائی کا لال انہیں خریدنے یا ایسا سوچنے کی جرأت ہی نہ کر سکا۔مجھے ذرا سا یاد ہے کہ جب میں پہلی بار ان کی خدمت میں کالم نگارمحترم عطاء الحق قاسمی صاحب کی رعایت سے حاضر ہو اتو ایسے لگا کہ اجنبیت کا کوئی تصور موجود ہی نہیں ہے ان کی سر پرستی اور خاص شفقت اور عنایت سے قلم پکڑنا آیاپھر ایک روز ملاقات میں مجھے بھی فرمایا ”کالم مستقل لکھ لیا کرو“میں اور کالم؟”جی“اب آپ پہلی سیڑھی پر قدم رکھنے کے اہل ہویوں میرے کالم ”بولتی تصویریں“کا آغاز ہوا جس کا عنوان کالم نگاررائے ارشاد کمال صاحب ہی نے تجویز کیا  الحمد اللہ جو سفر آج تک جاری و ساری ہے میں اپنے کرم فرما رائے ارشاد کمال صاحب کو بھی ان سے ملوانے لے گیا مرحلہ تعارف کیا طے ہوا دوستی کی فضاء ہی بن گئی کہا میں کبھی ان سے ملا ہی نہیں مگر پھر بھی لگتا ہے کہ جیسے کہیں ملا ہوں ان کا نام ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ سا ہے ناجانے کیسے اور کیوں؟پاس ہی بیٹھے ایڈیٹر ماہنامہ قومی ڈائجسٹ پروفیسر خالد ہمایوں صاحب تشریف فرما تھے وہ ان کی کتابوں کے نام گنوانے بیٹھ گئے جب انہیں پتہ چلا کہ یہ تصنیف و تالیف کا اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں اور کبھی روز نامہ”اوصاف“میں کالم لکھتے رہے ہیں تو روز نامہ ”پاکستان“میں کالم شائع کرنے پرمیری درخواست پر آمادہ ہو گئے جو ابھی تک ”ناقابل تردید“ کے عنوان سے لکھتے چلے آ رہے ہیں پھر تو باتوں اور ملاقاتوں کا ایک سلسلہ چل نکلا ان سے وابستہ یادوں کا ایک دریا ہے جو دل و دماغ کے کناروں میں بہتا چلا آتا ہے سوچتا ہوں کہ کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں؟مجھے بہت کچھ یاد آ رہا ہے لیکن بھول بھول جاتا ہوں یہ بھولنا بھی دراصل یاد ہی کی ایک کڑی ہے لگتا ہے کہ قبلہ قدرت اللہ چوہدری صاحب کہیں بھی نہیں گئے یہیں کہیں ہوں گے بھلا پھول مرتا کب ہے بس ذرا خوشبو کی صورت میں بکھر جاتا ہے بس ایک بات ہے کہ خوشبو کے بدن کو چھوا نہیں جا سکتا یہ بھی زندگی کا دوسرا روپ ہے بقول احمدندیم قاسمی مرحوم 
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤ ں گا
  
 
  

مزید :

رائے -کالم -