جب بچہ اپنے آپ پر بھروسہ اور خوداعتماد نہیں ہوتا تو اسے مشکلات کا سامنا کرنے کا موقع بھی نہیں ملتا کیونکہ والدین اس کے مسائل خود حل کرتے ہیں
مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:45
ذیل میں ایک اور صورتحال درج ہے جہاں ایک بچے کو دوسرے افراد پر زیادہ سے زیادہ انحصار اور دوسروں کی خوشنودی ورضامندی کے حصول کا درس دیا جاتا ہے:
”تم جو کچھ چاہو، پہن سکتے ہو!“
”امی جان آپ کو یہ لباس کس طرح پسند ہو گا؟“
”نہیں پیارے بیٹے! یہ قمیص اور نیکر اکٹھی نہیں پہنی جا سکتیں۔واپس جاؤ اور نیکر کے بجائے پتلون پہن کر آؤ جو قمیص کے ساتھ اچھا لگے۔“
پھر ایک ہفتے بعد:
”امی جان! مجھے کیا پہننا چاہیے؟“
”میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا جو کچھ تمہیں پسند ہے، پہن لو، تم ہمیشہ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو؟“
کریانے کی ایک دکان پر دکاندار بچے سے پوچھتاہے: ”کیا تمہیں ٹافی چاہیے؟“ اس پر بچہ اپنی ماں کی طرف دیکھتا ہے اور کہتا ہے: ”کیا میں ایک ٹافی لے لوں؟“ اس بچے کو ابتداء سے ہی یہ سکھایا اور پڑھایا گیا ہے کہ وہ اپنی ہر ضرورت اور خواہش کے لیے اپنے والدین سے اجازت لے۔ کھیلنے، کھانے، پینے، سونے، دوست بنانے، سوچنے کے بارے انہیں اپنے والدین سے پوچھنا پڑتا ہے۔ اس روئیے کی بنیاد اس بنیادی مفروضے پر ہے کہ بچے اپنے والدین کی ملکیت ہیں۔ بچوں کو اپنا آزادانہ اندازفکر اپنانے، انہیں اپنے مسائل خود حل کرنے اور انہیں اپنے اندر خوداعتمادی پیدا کرنے کے بجائے والدین بچو ں کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں۔
خلیل جبران نہایت ہی فصیح و بلیغ انداز میں اپنی نظم ”پیغمبر“ میں ان بچوں کے متعلق ذکر کرتا ہے جنہیں والدین‘ اپنی ملکیت تصور کرتے ہیں:
تمہارے بچے
تمہارے نہیں ہیں
وہ زندگی کے بیٹے بیٹیاں ہیں
وہ تمہارے ذریعے وجود میں آئے
لیکن
وہ تمہاری طرف سے اس دنیا میں نہیں آئے
حالانکہ وہ تمہارے ساتھ رہتے ہیں
لیکن تم ان کے مالک نہیں ہو!
معاشرے میں اس قسم کے روئیے اور طرزعمل کا نتیجہ ایک ”محتاج“ بچے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ والدہ گھر میں ایک ثالث کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے جو لڑائی کا آغاز بھی کراتی ہے اور اختتام بھی کراتی ہے۔ یہ بچہ اس وقت چیخنے چلانے لگتا ہے جب اس کا بڑا بھائی اسے مارتا پیٹتا ہے۔ یہ والدین ہی ہیں جن کے ہاتھ میں بچے کا اندازفکر، جذبات اور احساسات ہوتے ہیں۔ جب بچہ اپنے آپ پر بھروسا اور یقین نہیں کرتا اور خوداعتماد بھی نہیں ہوتا تو پھر اسے اپنی مشکلات کا سامنا کرنے کا بھی موقع بھی نہیں ملتا کیونکہ والدین اس کے مسائل و مشکلات خود حل کرتے ہیں اور مستقبل میں بھی حل کریں گے لہٰذا بچے اپنے معاملات کے بارے میں اپنے فیصلے کرنے کے بجائے والدین پر بھروسا اور انحصار کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔