ہم خیال جج، جرنیل اور جرنلسٹ
حکومت نے آئینی ترامیم کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی ہے، بالکل ٹھیک ہے کیونکہ ملک اس وقت ایسے فسادیوں میں گھرا ہوا ہے جو کسی قیمت پر کسی شریف آدمی کو اہم عہدے پر دیکھنے کے روادار نہیں ہیں، خواہ وہ عہدہ وزارت عظمیٰ کا ہو، صدر پاکستان کا ہو، چیف جسٹس کا ہو یا پھر آرمی چیف کا، ان فسادیوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ ملک میں ایسی دھماچوکڑی مچا کر رکھی جائے کہ سیاسی استحکام نصیب نہ ہو اور نتیجتاًمعاشی استحکام نہ ہو، اسی لئے تو بعض ایک فسادیوں نے مہنگائی کے گر جانے، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں استحکام اور ملکی برآمدات میں اضافے پر یہ کہہ کر حیرت کا اظہار کیا کہ ملک میں معاشی اشاریے سیاسی استحکام آئے بغیر ٹھیک ہو رہے، ان فسادیوں کو اس سے غرض نہیں ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عوامی فلاح و بہبود کو اپنی گورننس کا معیار بنا کر چل رہی ہیں اور آئے روز عام لوگوں کے فائدے کی چیزیں کرتی ہیں، اس کے برعکس ان فسادیوں کو علی امین گنڈا پور بھاتا ہے جو انہیں مغلظات بکتا ہے۔ اندارزہ کریں اگر کسی اور چیف منسٹر نے خواتین اینکر پرسنوں کے بارے میں کہا ہوتا کہ’مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے‘ تو اس وقت تک پروگرام پر پروگرام ہو رہے ہوتے اور عوام کا جینا دو بھر کیا ہوتا۔ لوگوں کو وہ وقت نہیں بھولا جب نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف چور ڈاکو کی گردان ہر شام سات سے رات بارہ بجے تک بے تکان کی جاتی تھی، اگر کلثوم نواز بیمار بھی ہوئیں تو ان کی بیماری کا مذاق اڑایا جاتا تھا اور مریم نواز کو طرح طرح کے القابات دیئے جاتے تھے۔
یہ ہے وہ معاندانہ ماحول جس میں نون لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں ملک کو لے کر چل رہی ہیں، یہ ہیں وہ سازشی عناصر جن کے ہوتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظام انصاف کو آئین اور قانون کی کسوٹی پر چلا رہے ہیں اور یہ ہیں وہ گھس بیٹھیے جن کے ہوتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ غالباً پہلی مرتبہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح حکومت وقت کے ساتھ کھڑی ہے، وگرنہ تو اس ملک میں اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے اپوزیشن کی رہی ہے اور شروع دن سے حکومت کی ناک میں دم کئے ہوتی ہے۔ دوسری جانب سڑک پر موجود عام پاکستانی بھی سب کچھ دیکھ رہا ہے، سب کچھ سن رہا ہے اور خاموش ہے کیونکہ اس کے لئے روپے کی بے قدری وبال جان بن چکی ہے، بے روزگاری کسی جن کی طرح دکھائی دیتی ہے جو آدم بو، آدم بو کرتا ہوا سارے شہر میں گھوم رہا ہو جبکہ بجلی کے بل علیحدہ سے ہارٹ اٹیکوں کا سبب بن رہے ہیں۔ وہ عام آدمی ملک کی بہتری چاہتا ہے، ترقی چاہتا ہے، اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ چاہتا ہے، بیمار ہونے کی صورت میں مفت علاج معالجہ چاہتا ہے، صاف پانی چاہتا ہے اور اپنی بچی کی شادی بخیر و عافیت انجام دینا چاہتا ہے، ایسے میں مریم نواز کی جانب سے حکومت پنجاب کی معاونت سے بچیوں کی اجتماعی شادیوں کا اعلان ایک مژدہ جانفزا سے کم نہیں ہے، یقینی طور پر اس سے بہت سے عام پاکستانیوں کا بھلا ہوگا مگر مجال ہے جو کسی ٹی وی شو میں اس حوالے سے ایک بھی پروگرام ہوا ہو، کسی نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو ٹیلی فون لائن پر لیا ہو اور یہ جاننے کی کوشش کی ہو کہ ایک عام پاکستان کس طرح اس پروگرام سے مستفید ہو سکتا ہے، اس کے برعکس ہر ٹی وی چینل ایک ایسے چیف منسٹر کو اٹھانے میں لگا ہوا ہے جو بار بار اپنے عوام کو دھوکا دیتا ہے، مغلظات بکتا ہے اور میڈیا پر دشنام طرازی کرتا ہے۔ ایک عام پاکستانی یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ یہ صورت حال بالکل وہی ہے جیسی تب تھی جب نواز شریف نے موٹر وے کا منصوبہ شروع کیا تھا، تب بھی بہت کچھ کہا گیا تھا اور آج وہی تنقید کے ڈونگرے برسانے والے کہتے پائے جاتے ہیں کہ میں تو موٹر وے پر تین گھنٹے میں اسلام آباد پہنچ جاتا ہوں۔ شائد نون لیگ کی یہ مخالفت اس سبب ہے وہ گزشتہ چالیس برسوں سے اقتدار میں ہے، نواز شریف، ان کے بھائی، ان کی بیٹی اور بھتیجا تسلسل سے پنجاب میں حکومت کر رہے ہیں جس سے عوامی رائے پر اثر انداز ہونے والوں کے اندر اکتاہٹ پیدا ہو گئی ہے اور وہ محض ایک چینج کی خاطر نواز شریف کی مخالفت پر اترے ہوئے ہیں وگرنہ وہ جانتے ہیں کہ گڈ گورننس کے محاذ پر عمران خان کی کیا کپیسٹی ہے!
جون ایلیا نے کبھی کہا تھا کہ
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں
میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں
لیکن تب تک شائد سوشل میڈیا کی وبا اس قدرنہ پھیلی تھی جو رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لئے لوگوں کو ایک خاص زاویے سے ہر شے دکھاتی ہے، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج عام پاکستانی بھی وہی باتیں کرتا دکھائی دیتا ہے جو فسادیوں کاٹولہ صبح و شام سوشل میڈیا پر کررہا ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر حکومت نے سوشل میڈیا کولگام ڈالی ہے تو وہ بھی ٹھیک کیا ہے کیونکہ ملک ہر آئے روز ایک 9مئی کا متحمل نہیں ہو سکتا، اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومتی اتحادآئینی ترمیم کب تک لانے میں کامیاب ہوتا ہے کیونکہ آئینی ترمیم تو ہونی ہے، جو ضروری بھی ہے اور مجبوری بھی ہے کیونکہ پاکستان اب ہم خیال ججوں، جرنیلوں اورجرنلسٹوں کا متحمل نہیں ہو سکتا، جنھوں نے 2014سے 2024تک کی دہائی میں ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے اور عوام کو Naugty Nintiesکی طرح ایک اور انتشار اور فساد سے بھری دہائی دیکھنا پڑی ہے۔ اللہ پاکستان پررحم کرے اور ان فسادیوں سے ملک کی جان چھڑوائے!