تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 47
رستم خاں اگر سپہ سالاری کر رہا ہوتا تو کاوادے کر دوسری چوٹ بچا لیتا۔مشینوں پر گرنے کے بجائے آدمیوں پر گرتا لیکن وہ لڑائی لڑنے کہاں نکلا تھا۔وہ تو جان ہارنے چلا تھا اور جان نچھاور کرنے والے توپوں اور آدمیوں میں تمیزنہیں کرتے۔
دوسری ضرب میں خاں کا محافظ دستہ جو خاص لشکر کاسپر تھا،نابود ہو گیااورخان ان کی لاشوں کو روندتا ہوا توپ خانے پر چڑھ گیا۔نامی گرامی توپیں تباہ کر دیں۔ان کے بڑے بڑے چوبیں اڈے پھونک دیئے،عملے میں سے جو ہاتھ لگ گیا۔اسے قتل کر دیا۔قبل اس کے کہ خان کلاں ذوالفقار خاں اپنا توپ خانہ لیکر صف شکن خاں کی مدد کو پہنچے۔رستم خاں اورنگ زیب پر دھاوا کر چکا تھا۔خون سے لال تلوار علم کئے نعرۂ جنگ سے زمین و آسمان کو ہلاتا ہوا قول کے اتنے قریب پہنچ گیا کہ اورنگ زیب کا کوہ پیکر ہاتھی نظر آنے لگا۔خان نے تلوار کی نوک سے اشارہ کیا اور گرجا۔
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 46 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
فیل بانوں کے آنکس اور سواروں کے مہمیز جانوروں کو چھیڑرہے تھے کہ اورنگ زیب کا مشہور سردار شیخ میر پانچ ہزار تجربہ کار سواروں کے ساتھ خان کا راستہ روکنے آگیااور دست بدست جنگ کی نوبت آگئی ۔ تلواروں اور نیزوں کی بجلیاں چمک رہی تھیں۔تیروں کی بارش ہو رہی تھی لیکن رستم خاں پر رن چڑھا ہوا تھا اور جوموت سے ٹکرا رہا ہو،اسے کون روکتا۔
پھر اورنگ زیب کے داہنے ہاتھ کو جنبش ہوئی۔سبز پوش قاصد حکم لے کر اڑا اورفرمان پاتے ہی زماں اسلام خاں دس ہزار سواروں کے ساتھ آندھی بن کر چلا اورتن واحد کی طرح خان اعظم پر گرا۔یہ اتنا بھاری اور کاری حملہ تھا کہ بڑے سورما پیٹھ دکھلا دیتے لیکن رستم خاں نے اس کو بھی انگیز کر لیا۔ہر چند کہ ہزاروں سوار غنیم کی توپوں کا شکار ہو چکے تھے،داہنے بازوپر شیخ اور بائیں طرف خان زماں کا دباؤ بڑھ رہا تھا۔اور سامنے خود اورنگ زیب حرکت کر رہا تھا۔لیکن خان نے ایسا زبردست وار کیا کہ شیخ اپنا ہاتھی قربان کر کے جان بچا سکا اور خان شیخ کو مردہ سمجھ کر اورنگ زیب پر چڑھ گیا۔
خان زمان اسلام خاں جو دکن اور کابل کی لڑائیوں میں اورنگ زیب کا دست و بازو رہ چکا تھا، اپنے سواروں کو سمیٹ کر نیچے ہٹ آیا۔اس طرح اعظم اس شتر سوار توپ خانہ کی زد میں آگیا جو ذوالفقار خاں کی کمان میں خان اعظم کا تعاقب کر رہا تھا لیکن خان نے بھی ایسی یلغار کی کہ اورنگ زیب کو راستہ دینا پڑا۔ساتھ ہی شتر سوار توپ خانے کی پہلی باڑھ چلی اور پہلی گولی خان کے سینے پر لگی۔خان عماری کی پشت سے ٹکرا گیالیکن سنبھل کر عماری کی زنجیروں کے سہارے نیچے اترا۔سبزہ آغز بیٹے صلابت خان نے کوتل گھوڑا پیش کیا۔ہاتھ میں لگام لی تو بکتر کی آستین سے ٹپکتے خون میں ڈوب گئی۔بیٹے نے کچھ کہنا چاہا ۔ہونٹ کانپنے لگے،سننے سے پہلے جواب ملا۔
’’جان پدر، میدان جنگ میں رستمی اور اسفند یاری کرتے ہوئے جان دے دینا تمہارے گھر کی میراث ہے اورتمہارے ہی گھر میں رہے گی۔‘‘
شاہجہانی علم کو رکاب کی زنجیر اور ساق پوش کے درمیان رکھ دیااور باپ بیٹوں نے اورنگ زیب کی سواری کے خاص سرداروں شیخ ہادی اور میر دلاور پر گھوڑے اٹھا دئیے۔ پھر اورنگ زیب کی عماری سے تفنگ کا ایک وار ہوا اور زخمی خان اعظم جو صرف اپنے حوصلے کی بدولت گھوڑے کی پیٹھ پر قائم تھا۔زمین پر آگیا۔خان زماں اسلام خاں نے ہاتھی سے اتر کر اپنے ہاتھ سے خانِ اعظم رستم خان فیروز جنگ بہادر صوبہ دار دکن کا سر کاٹ لیا اور اورنگ زیب کے ہاتھی کے قدموں میں ڈال کرعرض کیا۔
’’دشمن کے سب سے بڑے سپہ سالار کا سر مبارک ہو۔تحت طاؤس مبارک ہو۔‘‘
رستم خان کی موت ایسی ہی تھی۔دارا شکوہ کا بایاں ہاتھ قلم ہو گیاتھا۔اورنگ زیب جتنا خوش ہوتا بجا تھا۔
اب جبکہ رستم خاں کے جھنڈے سرنگوں ہو گئے تھے۔آفتاب بلند ہو چکا تھا اور راجہ رام سنگھ راٹھور پیش قول کھڑا تھا ۔مقتول سپہ سالار کے زخمی بھائیوں بھتیجوں کو بھاگتا دیکھ کر اس کی رگ شجاعت پھڑک اٹھی،ایک داس کے ہاتھ سے قرنا چھین کر پھونک دی۔حقیقی بھائی راج کمار دیبی سنگھ نے رکاب پکڑ کر نوید ن کی۔
’’مہابلی کی آگیہ نہیں ملی۔‘‘
’’یم راج کسی کے ادھین نہیں ہوتے ‘‘ ساتھ ہی زرکارنیام سے کھڑکھڑاتی ہوئی تلوار نکل پڑی ۔بادشاہوں کے تخت کی طرح سجا ہوا مزاج آشنا گھوڑا ہنہنا کرپیچھے پیروں پر کھڑا ہو گیا۔راجہ نے زرنگار گردن پر مسکرا کر تھپکی دی اورمسکرا کر اپنے ارد گرد کھڑے ہوئے خاصہ کے سواروں کو دیکھا جن کی تعداد دو ہزار تھی اور جو سر تاج بقدم دلہا بنے ہوئے تھے اور جن کے ہتھیارقیمتی زیوروں سے زیادہ قیمتی تھے اور جن کے گھوڑے سونے چاندی کی پاکھریں پہنے ہوئے تھے اور تیزدھوپ میں ان پر نگاہ ٹہرتی تھی۔دس ہزار سرخ اطلس کے لباس پہنے اور مرصع زیور زیب تن کئے راجہ کے جھنڈے اٹھائے کھڑے تھے۔جن کے پھریرے زرد تھے اور ڈانڈیں سنہری تھیں اور جو سب کے سب راجہ کے عزیز و اقارب تھے۔راجہ کی تلوار علم ہوتے ہی بارہ تلواریں صیقل کئے ہوئے فولاد کی ناگنوں کی طرح فضا میں تڑپنے لگیں پھر راجہ نے رجز پڑھا ۔
’’جب ہم اپنے تخت رواں( گھوڑے ) پر چڑھتے ہیں
اور ہمارے نیام بابنی سے
ناگ راجہ کی سپتری(تلوار)پھنپنا کر نکلتی ہے تو
پرلے ہمارے سر پر اپنا چھتر کھول دیتی ہے اور موت
رکاب تھام لیتی ہے
اورفتح پھاٹک کی طرح ہماری گن گاتی ہوئی آگے آگے چلتی ہے تو کیا ہم ایسے جو دھارن کو پیٹھ دکھا سکتے ہیں
’’کداپ ۔نہیں‘‘
لفظوں کی تکرار سے زمین و آسمان گونج گئے اور گھوڑوں کی ایڑ لگ گئی،میدان میں ایک زعفرانی بادل اڑنے لگا جن میں ان گنت بجلیاں چمک رہی تھی،راجہ اپنے سواروں کو ذوالفقار خاں کی توپ خانے سے بچاتا ہوا پورے تین میل کا چکر کاٹ کر شاہزادہ مراد پر چڑھ گیا۔گھوڑوں کی پاکھریں زمین سے لگ گئی تھیں۔شہ سواروں نے راسیں کمر سے باندھ لی تھیں۔تلواریں علم تھیں اور دامن سنہرے عقابوں کی طرح اڑرہے تھے۔شاہزادہ مراد گنج سلطانی نامی ہاتھی پر سوارتھا۔تاج نما خود ہیروں سے منڈھا ہوا تھا۔بکتر نورتن جواہر دوزی سے شفق بن گیا تھا۔سو جنگی ہاتھی کیلوں اور گھنگروؤں سے بھری ہوئی یا کھریں پہنے سونڈ میں زنجیریں لپیٹے اورکلہاڑیاں اٹھائے ہوئے مستی میں شوخیاں کرتے ہوئے سامنے کھڑے تھے۔(جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 48 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں