وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 31ویں قسط
جس جگہ ماریہ نے بتایا تھا وہاں موبائل نہیں تھا ۔ہو سکتا ہے کہ ہاتھ لگنے سے نیچے گر گیا ہو۔ ساحل فرنٹ سیٹ کے نیچے ہاتھ سے موبائل ڈھونڈنے لگا۔ اسی دوران ماریہ کے پاس ایک بچی آئی جو چھ یا سات سال کے لگ بھگ تھی۔ اس نے پٹھانی فراک پہنا ہوا تھا جس پر شیشے جڑے تھے۔
’’بیگم صاحبہ! یہ خریدیں گی میری امی نے بڑی محنت سے بنائے ہیں۔‘‘
ماریہ نے کیمرہ سٹاپ کیے بغیر پتھر پر رکھ دیا اور بچی کی چیزیں دیکھنے لگی۔ بچی کی چیزوں کو چھوئے ایک ساعت بھی نہ گزری کہ وہ بچی خوبصورت جوان لڑکی کا روپ دھار گئی۔ ماریہ کے ہاتھ سے صندل کی لکڑی کا پرس چھوٹ گیا، اس کے حلق سے بے اختیار نکلا۔’’وشاء!‘‘
وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 30ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وشاء سفید لباس میں اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اس نے اپنے سامے کے دانت ماریہ کی گردن میں پیوست کر دیئے۔ ماریہ کی کرب ناک چیخیں فضا میں بلند ہوگئیں۔ ساحل تیزی سے گاڑی سے باہر نکلا اور ماریہ کی طرف بڑھا۔
جونہی ماریہ کا خون وشاء کے نوکیلے دانتوں میں لگا وشاء کا سفید لباس سات رنگوں میں بدل گیا۔ ساحل کو دیکھتے ہی وہ لڑکی کسی روح کی طرح ہوا میں اڑی اور سات رنگوں والی خوبصورت تتلی کا روپ دھار گئی۔ ساحل نے یہ منظر تو دیکھا مگر وشاء کا چہرہ نہ دیکھ سکا۔
اس نے ماریہ کو بانہوں کے حصار میں لے لیا اس نے اوپر دیکھا۔ تتلی ، ابھی تک ہوا میں اڑ رہی تھی وہ بالکل ایسی ہی تھی جیسی اسے خواب میں دکھائی دی تھی۔ پھر وہ اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی۔
ماریہ دم توڑ چکی تھی۔ ساحل نے ظفر کو فون کیا وہ سب دوڑتے ہوئے وہاں پہنچے۔ سب کے ہوش اڑ گئے۔ رخسانہ چیخ چیخ کر رونے لگی۔۔۔توقیر نے اسے سنبھالا۔ ظفر سکتے کی سی کیفیت میں ماریہ کی لاش کے قریب بیٹھا تھا۔ پچھتاوے کے احساس سے اس کا سر چکرا رہا تھا کہ کاش ہم یہاں نہ رکتے۔
اس نے ماریہ کے چہرے پر اس کا دوپٹہ ڈال دیا اور سوالیہ نظروں سے ساحل کی طرف دیکھا جو کسی بڑے سے پتھر پر خود بھی پتھر بنا بیٹھا تھا۔
’’یہ سب کیسے ہوا ساحل۔۔۔‘‘
ساحل ڈھیلے ڈھیلے قدموں سے ماریہ کی لاش کے قریب آیا اس نے ماریہ کے چہرے سے دوپٹہ اٹھایا اور اس کے چہرے کو ترچھا کیا۔ ماریہ کی گردن پر وہی وہ دانتوں کے نشان تھے جو شمعون کی لاش پر تھے۔
***
زرغام اپنے گھر کی چھت پر کھڑا تھا۔ وہ سیدھا کھڑا تھا اس کا چہرہ آسمان کی طرف تھا۔ اس کی کیفیت ایسی تھی جیسے وہ کسی کی بات سن رہا ہو، بظاہر سامنے کوئی نظر آرہا تھا۔ اس سے تھوڑے فاصلے پر ایک بوڑھا شخص بیٹھا تھا۔ اس کا حلیہ بہت عجیب تھا۔ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں مختلف پتھروں کی انگوٹھیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ گلے میں سیاہ ڈوری کے ساتھ کسی جانور کی چھوٹی چھوٹی ہڈیاں لٹک رہی تھیں۔
زرغام نے ہوا میں ہاتھ لہرا کر کسی کو جانے کا اشارہ کیا پھر اس نے اپنا رخ بوڑھے شخص کی طرف کیا اور فاتحانہ انداز میں دونوں بازو پھیلائے قہقہہ لگایا۔’’واہ۔۔۔میری ویمپائرز کے تین خطرناک حملے۔۔۔اپنی اولاد کو ڈھونڈنے والے والدین اب اپنی زندگیوں کی کھوج میں نکل جائیں کیونکہ زندگیاں تو سمجھو ان کے ہاتھوں سے گئیں۔‘‘
سامنے بیٹھے ہوئے بوڑھے شخص نے اسے اس کی کامیابی پر مبارکباد دی۔’’اس کا مطلب ہے کہ تمہاری کٹھ پتلیاں ٹھیک کام کر رہی ہیں۔ ان اموات کے بعد تو ان کی شیطانی طاقت کافی بڑھ گئی ہوگئی۔ تم ان سے وہ کام کیوں نہیں لیتے جن کے لیے تم نے یہ سب کیا ہے۔‘‘
’’ان کاموں کا ابھی وقت نہیں آیا، ویسے بھی ایک پریشانی ہے جس میں میں الجھا ہوا ہوں۔‘‘
’’وہ کیا۔۔۔؟‘‘ بوڑھے شخص نے پوچھا۔
’’خیام۔۔۔‘‘ زرغام اپنی پھٹی پھٹی آنکھوں سے فضا کو گھورنے لگا۔
’’خیام۔۔۔کیا مطلب؟‘‘ بوڑھے شخص نے پوچھا۔
’’میرے گیان کے مطابق فواد، حوریہ، وشاء اور خیام پر میرا عمل کامیابی سے پورا ہوا ہے۔ مگر جب سے میں نے ان چاروں کو اپنی قوتیں استعمال کرنے کا اختیار دیا اس روز سے خیام کا مجھ سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ میں نے اپنے مؤکلوں کے ذریعے بھی خیام کو تلاش کیا مگر اس کا پتہ نہیں چلا، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ میرا عمل بھی اسے ڈھونڈ نہیں پا رہا۔ میں نے اسے یہ روپ دیا اور وہ مجھے ہی بے خبر کر گیا۔‘‘
بوڑھا شخص تمسخرانہ انداز میں ہنسنے لگا۔’’تم پھر کس بات پر اپنی فتح کا جشن منا رہے ہو۔ کالا علم کرنے والے کا کیا ہوا ایک غلط عمل اسے موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے۔ خیام کو ڈھونڈو ورنہ اپنی بربادی کی تیاری رکھو۔یقیناً اس روز جب تم نے ان چاروں پر عمل کیا تو خیام کے معاملے میں کوئی گڑ بڑ ہوگئی ہوگی۔ اگر اس کی ڈ ور تمہارے ہاتھ میں نہیں تو یہ بات بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘
زرغام بوڑھے شخص کی بات پر مزید پریشان ہوگیا’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، کالے علوم کی دنیا میں آپ کا تجربہ بہت زیادہ ہے میں آج رات کو چلہ کاٹوں گا۔‘‘
بوڑھا شخص کھڑا ہوگیا’’تمہیں میری مدد کی ضرورت ہو تو بتا دینا اور یاد رکھو ایک ہمزادکی طاقت کے آگے سینکڑوں آسیب بھی کچھ نہیں تم نے ان چاروں کے ہمزاد مسخر تو کرلیے ہیں لیکن انہیں قابو میں رکھنا بہت مشکل کام ہے۔‘‘ یہ کہہ کر بوڑھے شخص نے اپنا لاکٹ اتار کر زرغام کوپہنا دیا اور پھر وہاں سے چلا گیا۔
**
ماریہ کی لاش لے کر ظفر اور توقیر گھر پہنچ گئے تھے۔ ظفر کا بھی گھر ماتم کدہ بن گیا۔ توقیر اور رخسانہ ، حوریہ اور ساحل ، ظفر کے گھرپر ہی تھے۔یکے بعد دیگرے اموات کے سلسلے نے ان کے دماغ شل کر دیئے تھے وہ لٹے پٹے بیٹھے تھے جیسے ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔ راحت اور ردا ظفر کی ڈھارس بندھا رہی تھیں۔ زبیر اور ماہین بھی پہنچ گئے تھے۔ وینا اور عارفین بھی وہاں موجود تھے۔سب پر جیسے سکتہ طاری تھا۔ اس دلخراش حادثہ پر سب کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔ آخر رسومات کے بعد توقیر ، رخسانہ ، حوریہ اور ساحل کے ساتھ ساتھ زبیر اور ماہین بھی رات گئے تک ظفر کے ساتھ ہی رہے۔ (جاری ہے )
وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 32ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں