وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 32ویں قسط

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 32ویں قسط
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 32ویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تقریباً رات کے دو بجے وہ لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹے ،اگلے روز صبح آٹھ بجے انہیں قل کے لیے پھر آنا تھا۔ ساحل اپنے گھر گیا تو ظفر کا ہینڈی کیم اس کے بیگ میں ہی تھا۔
راحت اور ردا ظفر کے گھر ہی تھیں۔ ساحل کپڑے بدلے بغیر بستر پر دراز ہوگیا۔ اس کا دل جتنا شکتہ تھا ذہن اتنا ہی الجھا ہوا تھا۔ واقعات اور حالات نے انہیں کیسے موڑ پر لا کھڑا کیا تھا۔ 
موت ان کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہی تھی۔ ان کے اپنے ان کی آنکھوں کے سامنے لقمہ اجل ہو رہے تھے۔ مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ وار کون کر رہا ہے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ہم اپنے دفاع کے لیے لڑیں مگر کس سے اسے ہینڈی کیم کیمرے کا خیال آیا کہ جس وقت وہ موبائل لینے گیا تو اس کا کیمرہ آن تھا جس وقت ماریہ کا قتل ہوا اس وقت وہ کیمرہ بڑے سے پتھر پر پڑا تھا۔

وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 31ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
 اس خیال کے ساتھ ہی وہ برقی سرعت سے اٹھا اور اپنے کپڑوں کے بیگ سے کیمرہ تلاش کرنے لگا۔ کیمرہ ملتے ہی اس نے کیمرہ آن کیا۔ وہ ویڈیو ڈھونڈی اور پلے کا بٹن دبایا۔ آبشار کے خوبصورت مناظر کے سامنے ماریہ کھڑی مسکرا رہی تھی۔
ساحل بہت بے چین تھا وہ خوبصورت مناظر کی ویڈیو فارورڈ کرنے لگا اسے جو دیکھنا تھا وہ ابھی تک اس کی آنکھوں کے سامنے نہیں آیا تھا۔ پھر کیمرے کی تصویر بری طرح ہلنے لگی۔ ساحل نے وہیں پر بٹن چھوڑ دیا۔ اس کی نظریں کیمرے کی سکرین پرجم گئیں پھر جیسے کیمرہ کسی جگہ گرا اور پھر ماریہ کی طرف کیمرے کا رخ ٹھہر گیا۔
ماریہ خوف سے پھٹی پھٹی آنکھوں سے فضا کو گھور رہی تھی ساحل کو اس کے آس پاس کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بے چینی سے کسی دوسرے وجود کو ڈھونڈ رہی تھیں اس بچی کو جو ایک جواں لڑکی کا روپ دھار گئی تھی۔ جس نے ماریہ پر حملہ کیا تھا۔ پھر ساحل کی آنکھوں میں ایک ستارہ سا جھلملایا۔ وہ روشنی کا ایک ڈاٹ تھا جو ماریہ کی گردن کے قریب تھا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد ماریہ کی گردن سے خون بہنے لگا اور وہ دھڑام سے زمین پر گر گئی۔
روشنی کا وہ ڈاٹ فضا میں اسی جگہ ادھر ادھر اڑنے لگا جہاں ساحل نے اس تتلی کو پھڑپھڑاتے دیکھا تھا پھر اسی تتلی کی مانند روشنی کا وہ ڈاٹ ہوا میں کہیں غائب ہوگیا۔
ساحل کے پورے جسم سے جھرجھری دوڑ گئی۔’’اس کا مطلب ہے کہ وہ لڑکی جس نے آنٹی ماریہ پر حملہ کیا اور جو بعد میں تتلی کے روپ میں بدل گئی کوئی عجیب الخلقت ہوائی مخلوق تھی جس کے وجود کو یہ کیمرہ دکھا نہیں پا رہا اور روشنی کا یہ ڈاٹ اس ماوراء وجودکی نشاندہی کر رہا ہے۔‘‘
ساحل نے خود کلامی کرتے ہوئے اپنا سر پکڑ لیا۔ مگر وہ لڑکی تو بالکل اس لڑکی جیسی تھی جسے میں نے خواب میں دیکھا تھا اس کے بھی سفید فراک میں سات رنگ کی د ھاریاں ابھر آئی تھیں مگر وہ لڑکی تو وشاء تھی کیا یہ لڑکی ۔۔۔اپنے اس سوال پر اسے حوریہ کی بات یاد آئی۔ جب میں نے اس سے پوچھا۔’’کاش تم مجھے وشاء کے بارے میں بتا سکتیں۔‘‘
حوریہ تصورانہ انداز میں آنکھوں کو فضامیں گھماتے ہوئے بولی’’وشاء بہت مزے میں ہے پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت ہے۔۔۔اس کے پروں میں اتنے خوبصورت رنگ ہیں کہ انسان ان میں کھو جاتا ہے۔ تم بھی بچ کے رہنا، نظر آنے والے خوبصورت رنگ کب خون کے رنگ میں بدل جاتے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔‘‘
ساحل کھویا کھویا سا اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا’’میں نے حوریہ کی اس با کو محض مذاق سمجھا مگر اس کی اس بات میں پراسرار حقیقت پنہاں ہے، حوریہ نہ صرف وشاء کے بارے میں جانتی ہے بلکہ وہ فواد کے بارے میں بھی جانتی ہے۔ یقیناً ان سب کا خیام سے بھی تعلق ہوگا۔ مگر یہ سب وہی ہیں جو لاپتہ ہوئے تھے یہ کس روپ میں ہمارے سامنے آرہے ہیں۔‘‘
ساحل سوچ کی بھول بھلیوں میں کھویا جا رہا تھا پھر اچانک اسے کالے جادو کی کتابوں کا خیال آیا جو ان سب کے لاپتہ ہونے کے بعد ان کے کمروں سے ملی تھیں ساحل کی پیشانی پہ پسینہ چمکنے لگا۔’’اوہ مائی گاڈ! یہ ساری باتیں کسی ناگہانی آفت کا پیش خیمہ ہیں۔‘‘ اس نے جلدی سے ظفر کا نمبر ملایا۔
’’انکل آپ انکل توقیر، انکل زبیر، انکل وقار کو لے کر اسی وقت میرے گھر آئیں۔‘‘
ظفر حیرت سے بولا’’تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے آدھی سے زیادہ رات گزر گئی ہے اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ میں کن حالات میں ہوں۔‘‘
’’انکل اس سے پہلے کہ صبح کا سورج ایک اور زندگی کا چراغ بجھا دے، ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔‘‘
’’مگر رات کے اس پہر میں ہم تمہارے گھر آکے کیا کریں گے۔‘‘
’’انکل کوئی ہمارے راستوں پہ شکنجے پھیلا رہا ہے ہمارے ساتھیوں کو دھیرے دھیرے موت کے گھاٹ اتار رہا ہے اور ہم اپنے اس دشمن سے ناواقف ہیں پلیز آپ ان سب کو لے کر ابھی میرے گھر آئیں میرے پاس آپ کو دکھانے کے لیے ایک خوفناک حقیقت ہے۔‘‘
ظفر نے لمبی سانس کھینچی’’اچھا ان سب سے بات کرتا ہوں۔‘‘
تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد وہ سب ساحل کے گھر پہنچ گئے۔ ساحل بہت گھبرایا ہوا اور پریشان تھا۔ اس نے سب کو اپنے کمرے میں بٹھایا۔
’’ایسی کیا چیز ہے تمہارے پاس جو تم نے اس وقت ہمیں یہاں بلایا ہے۔‘‘ ظفر نے کہا۔
ساحل ان سب کے قریب کرسی رکھ کر بیٹھ گیا’’میں نے آپ سب کو یہاں اس لیے بلایا ہے کہ جو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں وہ ایک ہی وقت میں آپ سب کے لیے جاننا بہت ضروری ہے وہ بھی بہت جلد کیونکہ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔‘‘
’’تم کیا کہنا چاہتے ہو تفصیل سے بیان کرو۔‘‘ توقیر نے کہا۔
ساحل نے بے چینی سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بات شروع کی۔’’میں آپ کو جو بتانا چاہتا ہوں۔ وہ آپ کو اس طرح سمجھ نہیں آئے گا جس وقت آنٹی ماریہ کا قتل ہوا تو میں گاڑی سے ان کا موبائل نکال رہا تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایک لڑکی کو جو سفید فراک میں ملبوس تھی ان کے قریب دیکھا، میں اس لڑکی کا چہرہ نہیں دیکھ سکا۔ اس لڑکی نے آنٹی ماریہ کی گردن پر اپنے دانت نصب کر دیئے جونہی خون اس کے منہ سے لگا۔ اس کی فراک سات رنگ کی دھاریوں کے ڈیزائن میں بدل گئی اور پھر اچانک غائب ہوگئی۔ میں نے آنٹی کو سنبھالا تو میں نے ہوا میں کسی تتلی کو پھڑپھڑاتے ہوئے دیکھا اس کے پروں میں وہی سات رنگ تھے جو اس لڑکی کے فراک میں تھے۔
وہ بہت پراسرار تھی، وہ میری آنکھوں کے سامنے غائب ہوئی۔ جب اس لڑکی نے آنٹی پر حملہ کیا تو میرا ویڈیو کیمرہ ان کے ہاتھ سے چھوٹ گیا وہ کیمرہ آن تھا اس وقت جو ویڈیو بنی میں آپ کو دیکھانا چاہتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر ساحل نے ہینڈی کیم کی ویڈیو کمپیوٹر پر چلائی۔ا س نے غیر ضروری سین پاس کرتے ہوئے وہیں سے ویڈیو چلائی جہاں سے ماریہ کا قتل ہوا۔ اس روح فرسا منظر پر سب کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ ظفر کی بے چین آنکھیں سکرین ٹٹولنے لگیں۔’’مگر یہ سب کس نے کیا، کوئی دکھائی کیوں نہیں دے رہا اور کہاں ہے وہ لڑکی تم جس کی بات کر رہے تھے۔‘‘
’’آپ نے وڈیو غور سے نہیں دیکھی۔‘‘ یہ کہہ کر ساحل نے ویڈیو کو تھوڑا سا ریورس کیا۔
اس نے سکرین پر انگلی رکھی’’یہ دیکھیں آنٹی ماریہ کی گردن کے قریب یہ ستارہ ٹمٹما رہا ہے تھوڑی ہی دیر میں ان کی گردن سے لہو بہنے لگتا ہے۔ آپ اپنی نظریں روشنی کے اس ڈاٹ پر مرکوز رکھیں۔‘‘ اس نے ایک بار پھر روشنی کے اس ڈاٹ کی طرف اشارہ کیا’’یہ دیکھو یہ ہوا میں حرکت کرتا ہوا اسی جگہ اوپر نیچے حرکت کر رہا ہے جہاں میں نے اس تتلی کو دیکھا تھا۔‘‘
زبیر اور توقیر کی آنکھوں میں حیرت اور خوف تھا ۔(جاری ہے )

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 33ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں