سید فیروز شاہ گیلانی کے سفر نامہ ”یار تُرکی“ کی رونمائی

8دسمبر کو لاہور ہائی کورٹ کے کراچی ہال میں ملک کی نامور شاعرہ اور ادیبہ محترمہ بشریٰ رحمان کی زیر صدارت سینئر ایڈوکیٹ سید فیروز شاہ گیلانی کے سفرنامہ ”یار تُرکی“کی تقریب رونمائی ہوئی جس میں وکلاءکی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔ اس تقریب میں چیف ایڈیٹر روزنامہ پاکستان مجیب الرحمٰن شامی ، جسٹس (ر) نذیر احمد غازی ، صدر لاہور ہائی کورٹ بار شفقت محمود چوہان ،سینئر وکلاءظفر علی راجا، رانا امیر احمد خان،میاں حمیدالدین قصوری ، ادیب اور شاعرہ پروین سجل اور راقم الحروف کو کتاب پر اظہار خیال کے لئے مدعو کیا گیا تھا ۔ راقم الحروف نے اس موقع پر جو اظہار خیال کیا وہ پیش خدمت ہے ۔ ”یار تُرکی“ سید فیروز شاہ گیلانی ایڈوکیٹ کا تیسرا سفر نامہ ہے ۔ اس سے قبل وہ “ڈھاکہ، کھٹمنڈو اور دلی ”اور“ سمر قند و بخارا “کا سفر نامہ لکھ چکے ہیں۔ ”یار تُرکی“ کیا کمال کتاب ہے۔ یہ سفر نامہ تو نہیں! سفرناموں میں تو سڑکوں، بازاروں ، پارکوں اور شاپنگ سینٹروں کی باتیں ہوتی ہیں، رنگوں اور روشنیوں کی باتیں ہوتی ہیں، گوریوں اور نائٹ کلبوں کی باتیں ہوتی ہیں، اور سفر نامے کا مصنف کتاب کا ہیرو ہوتا ہے ۔ ہر چیز اور ہر بات اُسی کے گرد گھومتی ہے ۔ یہاں تو اس طرح نہیں ہے ۔ یہ توتُرکی اور تُرکی کے بڑے بڑے شہرو ں اور مقامات کی تاریخ ہے ۔ تو کیا یہ تاریخ کی کتاب ہے ؟ نہیں، یہ تاریخ کی کتاب تو نہیں ہے ! تاریخ کی کتابوں میں تو اُکتا دینے والی جنگی تفصیلات ،محلاتی اور غیرمحلاتی سازشوں کی کہانیاں ، بادشاہوں کی عیش و عشرت اور عوام کی بے چارگی کی داستانیں ہوتی ہیں۔ یہاں تو معاملہ اس طرح نہیں ہے ۔ اس میں تو علامہ اقبالؒ ، مولانا روم، کما ل اتاترک ، حضرت مریم ؑ اور اصحاب کہف کے بارے میں بہت سی فکر انگیز باتیں ہیں۔ تو کیا یہ کچھ شخصیات کی سوانح عمری ہے ؟ نہیں ایسی بھی کوئی بات نہیں ! یہ کسی کی سوانح عمری نہیں ۔ تو کیا اس کتاب میں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات اوران کے شہریوں کی آپس میں محبت کی باتیں ہیں؟ ہاں، بےشک بہت ہیں ۔ لیکن صرف یہی نہیں، اور بھی بہت کچھ ہے! تو پھر آخر یہ کتاب کیا ہے؟
دوستو! یہ بیک وقت ایک خوبصورت سفرنامہ ، ترکی اور اس کے اہم شہروں اور مقامات کی تاریخ، جدید ترکی کا منظر نامہ اور خاص طور پر ترکی کے عوام کی ایک پاکستانی سے محبتوں، مکالموں ، مہمان نوازیوں اور عزت افزائیوں کا تذکرہ ہے۔ اور دلچسپ ایسا کہ بندہ پڑھتا چلا جاتا ہے اور مسحور ہو تا چلا جاتا ہے ۔ تاریخ ، علم ، ادب ،ثقافت ، روشنی ، رنگ ، محبت ، فخر اور احترام ایک ساتھ چلنا شروع کرتے ہیں اور صفحہ اوّل سے صفحہ آخر تک قدم بقدم چلتے رہتے ہیں۔
”یار تُرکی“کے پہلے چالیس صفحات ترکی کی قدیم، خصوصاً 1300ءمیں خلافت عثمانیہ کے قیام سے 1922ءمیں اختتام خلافت تک کی مختصر لیکن انتہائی جامع تاریخ ہے ۔ گویادریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے۔ خلافت کو بچانے کے لئے ہندوستا ن میں شروع کی گئی تحریک خلافت اور تحریک ترکِ موالات اور اس ضمن میں مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمد علی جوہر کے مجاہدانہ کر دار کا تذکرہ بھی اس کتاب کا حصہ ہے ۔ انگریزوں کے ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے شریف ِمکہ کا عثمانی خلیفہ سے بغاوت کر کے عثمانی حکام کو حجاز و نجد سے بے دخل کرنے پر علامہ اقبال کا نوحہ پڑھنے کے لائق ہے ۔ اس کے بعد استنبول ، آیا صوفیہ ، انقرہ ، قونیہ ، گوریمے ، قبرص، میرس، اناطولیہ ، ازمیر ، افسس وغیرہ کی سیر کیجئے او ر سر دُھنیے کہ کس خوبصورتی سے ماضی و حال کو ایک دوسرے سے باندھ دیا گیا ہے ۔ قونیہ کی سیر کرتے ہوئے علامہ اقبال اور مولانا روم کے فلسفہ و فکر کا فاضلانہ تذکرہ اگر آپ نے نہیں پڑھا تو گویا کچھ نہیں پڑھا۔ کچھ دیر کے لئے قاری بھول جاتا ہے کہ وہ ایک سفر نامہ پڑھ رہا ہے ۔ اُسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ مولانا رومی کی خانقاہ میں بیٹھا ہے ، مولانا رومی اور علامہ اقبال اس کے سامنے بیٹھے فلسفہ وتصوف کی گُتھیاں سُلجھا رہے ہیں ، اور وہ سن رہا ہے۔
بھائیو! یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ پاک و ہند اور ترکی کے مسلمان صدیوں سے محبت و احترام کے لازوال رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں ۔ان رشتوں کی چاہت ،محبت اور خلوص کا زمانہ حال میں کیا رنگ ہے ، اس کی صحیح جھلک گیلانی صاحب کی ”یا رتُرکی“ میں نظر آتی ہے ۔ دونوں حکومتوں کی آپس کی پرخلوص دوستیوں کی مثالوں کے ساتھ ساتھ عا م ترکوں کی عام پاکستانیوں سے محبت قدم قدم پر اپنا رنگ دکھاتی ہے ۔ گیلانی صاحب اپنی اہلیہ کے ساتھ استنبول کے ہوائی اڈے پر اُترتے ہیں تو امیگریشن اور کسٹمز کے حکام اُن کا گرین پاسپورٹ دیکھ کر جس طرح اُن کو خوش آمدید کہتے ہیں اُسے دیکھ کر گیلانی صاحب اور اُن کی اہلیہ حیران و پریشان ہو جاتے ہیں۔ ہر کسی کا سامان کھول کر باریک بینی سے چیک کیا جا رہا ہے ، یہاں تک کہ جہاز کا عملہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں، لیکن پاکستانی ہونے کے ناطے گیلانی صاحب اور ان کی اہلیہ کو عزت و احترام کے ساتھ بغیر چیکنگ کے گزار دیا جاتا ہے ۔ ہوٹل پہنچتے ہیں تو وہاں بھی اسی طرح کا استقبال کیا جاتا ہے ۔ قونیہ میں سلجوق یونیورسٹی جانا ہے تو گیلانی صاحب ہوٹل کے منیجر سے کہتے ہیں کہ وہ کوئی ٹیکسی منگوا دیں ۔ وہ کہتا ہے کہ یہاں ٹیکسیاں بہت مہنگی ہیں اور وہ کوئی اور طریقہ سوچنا شروع کر دیتا ہے ۔وہ نہیں چاہتا کہ پاکستانی مہمان کا زیادہ خرچہ ہو۔ گیلانی صاحب اصرار کرتے ہیں کہ ٹیکسی منگوا دیں کہ ہر صورت جانا ہے اور جلدی جانا ہے ۔ منیجر اپنے ایک آدمی کو کچھ کہتا ہے اوروہ گیلانی صاحب کا بیگ پکڑ کر چل پڑتا ہے ۔ وہ بس سٹاپ پر آتا ہے ۔ اتنے میں سلجوق یونیورسٹی کی طر ف جانے والی بس آجاتی ہے ۔ بس طلباءسے کچھا کچھ بھری ہوئی ہے ۔ کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہیں ہے ۔ لیکن وہ گیلانی صاحب کو زبردستی اندر دھکیل دیتا ہے ، اور ساتھ ہی زور سے ڈرائیور کو ترکی میں کچھ کہتا ہے جس میں سے صرف لفظ ”پاکستان “گیلانی صاحب کو سمجھ آتا ہے ۔ بس میں ایک ہلچل مچ جاتی ہے ۔ طلباءسمٹ کر راستہ دیتے ہیں۔ ایک طالب علم سیٹ سے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ زبردستی گیلانی صاحب کو بٹھاتا ہے۔ کنڈکٹرباوجود اصرار کے ٹکٹ نہیں دیتا۔ واپسی پر یونیورسٹی کے پروفیسر طلباءکو کہتے ہیں کہ گیلانی صاحب کو بس پر بٹھا کر آئیں، لیکن وہ شہر تک ساتھ آتے ہیں۔ بس کاٹکٹ بھی لیتے ہیں۔ کھانے پر اصرار کرتے ہیں اور پھر200کلومیٹر دور گیلانی صاحب کی اگلی منزل جانے والی بس پر بٹھا کر ہی اپنی راہ لیتے ہیں۔گیلانی صاحب کسی کو چ میں سوار ہوتے ہیں تو پتہ چلنے پر کہ آپ پاکستانی ہیں، ڈرائیور اور مسافر ضد کرکے اور پہلے سے بیٹھے ہوئے کسی مسافر کو اُٹھا کر سب سے آگے اورسب سے اچھی سیٹ پر بٹھاتے ہیں۔ ٹیکسی ڈرائیور کو پتہ چلتا ہے تو کرایہ لینے سے انکار کر دیتا ہے ۔ جب اصرار پراُسے لینا پڑتا ہے تو پھر اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ گیلانی صاحب کا گائیڈ بن جائے اور مہمان کی خاطر خدمت کے لئے وہ جو کچھ کر سکتا ہے کرے ۔
ایک نمائش میں جاتے ہیں ۔ایک سٹال پر ایک پر فیوم کی قیمت پوچھ بیٹھتے ہیں ۔ دکاندار فوراً پر فیوم کو ایک تھیلی میں ڈال کر پکڑا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ ایک ترک کا اپنے پاکستانی بھائی کے لئے تحفہ ہے اور کسی طرح اس بات سے نہیں ٹلتا ۔ کسی دور دراز گاﺅں کے ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے جاتے ہیں ۔ رش بہت ہے ۔ گیلانی صاحب کو بڑی مشکل سے دونوں طرف بیٹھے ہوئے ترکوں کے درمیان ایک خالی کرسی پر جگہ ملتی ہے ۔ جب کھانے کا آرڈر دیتے ہیں تو نا مانوس زبان اور لہجہ سن کر دائیں بائیں بیٹھے ترک چونک کر اُن کی طر ف دیکھتے ہیں۔ وہ انگریزی نہیںبول سکتے ۔ صرف ایک یک لفظی سوال کر تے ہیں ”مملکت“ ۔گیلانی صاحب بھی یک لفظی جواب دیتے ہیں ”پاکستان“۔ ترک اچھل پڑتے ہیں اور دونوں طرف کے ترک اپنی اپنی پلیٹیں جن میں اُن کا کھانا آچکا ہے ، گیلانی صاحب کے آگے رکھ دیتے ہیں اور اشاروں کنایوں سے سمجھاتے ہوئے اصرار کرتے ہیں کہ جب تک ان کا آرڈر تیار ہو تا ہے وہ اُن کے ساتھ کھانا کھائیں ۔استنبول سے دور اور دورا ن سفر ایک پرائیویٹ گھر نما گیسٹ ہاﺅ س میں ایک رات کے لئے رُکتے ہیں ۔ جب ترک مالکن کو معلوم ہو تا ہے کہ وہ پاکستانی ہیں تو بہت خوش ہوتی ہے ۔ان کے اعزاز میں ڈنر رکھ دیتی ہے اور گیسٹ ہاﺅس میں ٹھہرے تمام لوگوں کو اس میں مدعو کر لیتی ہے ۔ غرض قدم قدم پر گیلانی صاحب کو محبتوں کے زمزمے رواں دواں ملتے ہیں اورسب سے مزے دار واقعہ تو وہ ہے جب گیلانی صاحب میرس کے شہر میں اپنے ہوٹل سے رات کو سڑک گردی کر نے کے لئے نکلتے ہیں ۔ ٹیکسی ڈرائیور اُن کو شہر کے فیشن ایبل علاقے میں لے جاتا ہے ۔ ایک جگہ ایک نائٹ کلب آتا ہے ۔ ڈرائیور کہتا ہے کہ کیا آپ کلب کا شو دیکھنا پسند کریں گے؟ گیلانی صاحب کہتے ہیںکہ نہیں، مجھے اس کا شوق نہیں ۔ ویسے بھی میں جیب میں زیادہ پیسے ڈال کر نہیں لایا۔ اتنے میں ایک خوبصورت لڑکی ،جو غالباً اِسی کلب کی ڈانسر ہے ،آتی ہے اور کلب میں داخل ہوتی ہے۔ گیلانی صاحب اور ڈرائیور کو کلب کے سامنے کھڑے باتیں کرتے دیکھتی ہے تو رُک کر پوچھتی ہے کہ وہ یہاں کیوں کھڑے ہیں ؟ ڈرائیور بتا تا ہے کہ یہ پاکستانی سیاح ہیں، ہوٹل سے صرف گھومنے نکلے ہیں ، ان کی جیب میں زیادہ پیسے نہیں ہیں ، کلب نہیں جا سکتے ۔ لڑکی مسکرا کر گیلانی صاحب کو خوش آمدید کہتی ہے اور ڈرائیور سے کہتی ہے کہ انہیں کہیںکہ اگر اِن کے پاس پیسے کم بھی ہیں تو کوئی بات نہیں، یہ پاکستانی مہمان ہیں، یہ جو بھی دے دیں ہم لے لیں گے، لیکن افسوس کہ گیلانی صاحب پھر بھی حوصلہ نہ دکھا سکے۔
ترکوں کی پاکستان دوستی کی ایک اور شاندار مثال تب بنی جب گیلانی صاحب کے دل میں ایسے ہی خیال آیا کہ کیوں نہ کسی بڑے سرکاری اہلکار سے ملا جائے اور اُس سے ترکی کا نظام نظم و نسق سمجھا جائے ۔ چنانچہ اپنے ایک ترک دوست، جس سے اسی دورے کے دوران تعارف ہو اتھا ،کوکہہ بیٹھے کہ اُن کی استنبول کے گورنر سے ملاقات کرا دیں ۔ وہ اﷲ کا بندہ بھی بغیر اپاٹمنٹ لئے ،یا کسی سے رابطہ کئے ،گیلانی صاحب کو لے کر گورنر ہاﺅس کی طرف چل پڑتا ہے ۔ گورنر ہاﺅ س میں ہر کوئی پاکستانی مہمان کا سن کر راستہ دیتا چلا جا تا ہے اور گیلانی صاحب سیدھا گورنر صاحب کے ویٹنگ روم میں پہنچ جاتے ہیں ۔ گورنر صاحب کو اطلاع کی جاتی ہے کہ پاکستان سے آیا ہو اایک مہمان ملاقات کا خواہشمند ہے ۔ گورنر صاحب نے فوراً بلا لیا ۔ پر تپاک خیر مقدم کیا اوردیر تک صوبے کے نظم و نسق کے بارے میں بتاتے رہے ۔کچھ دیر کے بعد گیلانی صاحب نے خود ہی اجازت لی۔ گورنر صاحب دروازے تک رُخصت کرنے آئے ۔
غرض دوستو! کتاب کیا ہے ؟ گونا گوں موضوعات ، وسیع معلومات ،دلچسپ مشاہدات اور پاکستانیوں اور تُرکوں کی محبت و خلوص کے روح پرورتذکروں کے ساتھ ساتھ خود سید فیروز شاہ گیلانی کے کردار، علم و فضل اور دلکش اسلوب تحریر کا ایک حسین مرقع ہے ۔ میں دیانتداری سے سمجھتا ہوں کہ گیلانی صاحب کے جاننے والوں ، موضوع کا ذوق رکھنے والوں ،اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہئے ۔