جب دس بارہ ہزار افراد کے سامنے خیالات کا اظہار کیا تو پورے ہال نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے،ہر ملزم کے خاندان کی بحالی کیلئے کام کیا جانا چاہیے

جب دس بارہ ہزار افراد کے سامنے خیالات کا اظہار کیا تو پورے ہال نے پاکستان ...
جب دس بارہ ہزار افراد کے سامنے خیالات کا اظہار کیا تو پورے ہال نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے،ہر ملزم کے خاندان کی بحالی کیلئے کام کیا جانا چاہیے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:82
جب میں نے بہت بڑے ہال میں دس بارہ ہزار افراد کے سامنے اپنے ان خیالات کا اظہار کیا تو پورے ہال نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔
جب کوئی شخص کسی جرم کی پاداش یا شبہ میں جیل میں جاتا ہے تفتیش سے عدالتی کارروائی تک حوالاتی قیدی یا سزایافتہ قیدی کے طور پر جتنی دیر جیل میں رہ کر باہر آئے تو معاشرہ کو بطور عام شہری کے طور پر اسے قبول کرنا چاہیے اور اس کی دورانِ حراست جو ہنر یا تعلیم اسے حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اور جب وہ جیل سے رہا ہوئے۔ اسے دوسرے شہریوں کی طرح زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ اس کے علاوہ ان کی عزت کی بحالی کا کام کیا جائے کیونکہ وہ اپنے جرم کی سزا بھگت چکا ہے۔ اس لیے اس فرد کی اصلاح کے نقطہ نظر سے ہی نہیں بلکہ عملی طور پر ہر ملزم کے خاندان کی بحالی کے لیے کام کیا جانا چاہیے۔اس کے اہل خانہ کے لیے گزارہ االاؤنس اور اس کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام ہونا چاہیے تاکہ جرم کا ماحول بدل جائے، بچوں میں جرم کے خلاف شعور پیدا ہو۔ اور سزا یافتہ شخص کا گھرانہ قانون پسند شہری بن جائیں۔ کسی بھی جیل میں قیدیوں سے ملاقات کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو غیرانسانی سلوک ہم سب کو نظر آئے گا۔ قیدیوں سے ملاقات کرنے والے خواتین و حضرات اور قیدیوں کے اہل و عیال کو ذلت اور پریشانی کے علاوہ رشوت ستانی کے جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ اگرچہ جیلوں اور کیمپ جیل میں قیدیوں اور ملزموں کی ملاقاتوں کا احوال بڑا ہی افسوسناک ہے۔ بے بس قیدیوں سے ملاقات کے لیے رشوت لی جاتی ہے اور ملاقات کرنے والوں کو بھی بھاری رشوت دینی پڑتی ہے۔ قیدیوں کے ورثاء قیدی کے لیے جو کھانا یا تحائف لے کر آتے ہیں جیل کے کارندوں اور بعض روایات کے مطابق متعلقہ حکام میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ قیدی اور ان کے ملنے والے مجبوراً اس کرب ناک صورتحال سے گزرتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ سیشن کورٹس کے حکام اور علاقہ مجسٹریٹ ایسے مواقع پر موجود ہوں تاکہ کرپشن اور لوٹ مار کے اس ماحول پر وہ قابو پا سکیں۔ اس سے بھی قیدیوں اور ان کے خاندان میں اصلاح ہو سکے گی۔
امریکی تنظیم پرزنرز فیلوشپ موومنٹ کا مختصر تعارف 
قیدیوں کے لئے انصاف اور رحم
سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن پر جب واٹر گیٹ سکینڈل کا مقدمہ تجویز ہوا تو وہ تو صدارت سے مستعفی ہو کر بچ گئے البتہ اُن کے سٹاف میں سب سے سینئر آفیسر چک کالسن تھے جن کو واٹر گیٹ سکینڈل میں کردار ادا کرنے پر چند سال قید کی سزا ہوئی تھی۔ اپنی سزا بھگت کر جیل سے باہر نکلے تو انہوں نے ایک تنظیم ”قیدیوں کے لئے انصاف اور رحم“ کی بنیاد رکھی اور اس تنظیم کو قائم ہوئے ابھی اس وقت کچھ برس ہوئے تھے اس تنظیم کا دائرہ کار اقوام متحدہ کے علاوہ دنیا بھر کی تمام جیلوں تک وسیع ہے۔ لائیک مائینڈڈ افراد کو اس کا رُکن بنایا جاتا ہے جو اس بات سے متفق ہوں کہ گناہ گار قیدیوں کو خواہ وہ کسی بھی جرم میں ملوث رہے ہوں۔ انسانی ہمدردی، رحم اور انصاف کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا سوچنے والوں کوصرف امریکہ میں ہی نہیں دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس تنظیم کے لئے اکٹھا کیا گیا ہے اور اس تنظیم کی شاخیں آسٹریلیا، کینیڈا، انگلینڈ، ویلز، شمالی آئرلینڈ اور دیگر ممالک میں قائم ہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ یو ایس اے میں بھی۔ اس مختصر سی شروعات ہونے کے بعد اس کو پرزنرز فیلوشپ موومنٹ کا نام دیا گیا ہے اور اب یہ تحریک دنیا کے ہر حصہ اور خطے میں چل رہی ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -