وزیر اعلیٰ پنجاب لاہور پولیس سے ناراض کیوں؟

  وزیر اعلیٰ پنجاب لاہور پولیس سے ناراض کیوں؟
  وزیر اعلیٰ پنجاب لاہور پولیس سے ناراض کیوں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پنجاب حکومت نے بالآخر چند ایک متوقع پولیس افسران کے تبادلے کرہی دیئے ہیں۔تعینات ہونیوالے پولیس آفیسرز اچھی شہرت اور پیشہ وارانہ مہارت کے حامل ہیں، تاہم ابھی مزید تبادلے بھی کیے جائیں گے۔لاہور سے بھی کئی بڑے افسران تبدیل ہونگے البتہ پنجاب حکومت نے یہ تبادلے فی الحال کرکٹ چیمپیئن شپ کے میچوں کے پیش نظر نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ان میچوں کے اختتام پر تبادلوں کا ایک ریلہ دوبارہ آنے کا امکان ہے، ممکن ہے اس دوران کئی افسران اپنے تبادلے رکوانے میں بھی کامیاب ہو جائیں بظاہر تو اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا،اگر وزیر اعلیٰ پنجاب جنوری فروری کے دو ماہ کے ”پرفارمنس انڈیکیٹرز“ اجلاس بلوانے میں کامیاب ہو گئیں تو پھر اہم تبادلے بھی ہونے کا قوی امکان ہے۔ نئے تعینات ہونیوالے ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ راؤ عبدالکریم لاہور میں بطور ایس پی سٹی بھی کام کرچکے ہیں۔پنجاب حکومت کا انہیں اس سیٹ پر تعینات کرنے کا فیصلہ انتہائی خوش آئند ہے اور ان کی تعیناتی کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے،انہیں پہلے بھی سپیشل برانچ میں کام کرنے کا تجربہ حاصل ہے۔اس سے قبل بھی انہیں جہاں بھی تعیناتی دی گئی،وہ ہمیشہ حکومت کی گڈ گورننس اورادارے کی سربلندی کا باعث بنے ہیں۔ سپیشل برانچ میں ان کی تعیناتی سے پنجاب حکومت اور پولیس کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔ نئے تعینا ت ہونیوالے آرپی او فیصل آباد ڈی آئی جی ذیشان اصغر اور سی پی او صاحبزادہ بلال عمرکو ایسے وقت میں وہاں تعینات کیا گیا ہے جب فیصل آباد ریجن میں امن وامان پنجاب حکومت کیلئے ایک چیلنج بنا ہوا ہے، ہم یہ تونہیں کہہ سکتے وہاں پر تعینات رہنے والے پولیس آفیسر ڈی آئی جی ڈاکٹر عابد راجہ اور عادل کامران نے امن وامان کو بہتر بنانے میں پنجاب حکو مت کا ساتھ نہیں دیا دونوں انتہائی اچھی شہرت کے حامل اور ایماندار پولیس آفیسر تھے، بدقسمتی سے ایک ایسا واقعہ پیش آگیا کہ حوالات میں تین سگے بھائیوں کے قتل نے حکومت اور معاشرے کو جھنجوڑ کر رکھ دیا خیر واقعہ بھی بہت بڑا تھا ایسے واقعات افسران کے تبادلوں کا ہی باعث بنتے ہیں نئے تعینات ہونیوالے آرپی او ڈی آئی جی زیشان اصغر لاہور انوسٹی گیشن میں تو خاطر خواہ نتائج نہ دے سکے اگر اچھی کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہتے تو انہیں تبدیل نہیں کیا جا سکتا تھا اب انہیں جہاں تعینات کیا گیا ہے وہاں ان کی ڈائریکٹ کارکردگی متاثر کن نہ بھی ہو تو کام چل جائیگا، البتہ سی پی او صاحبزادہ بلال عمر کو بڑی محنت سے کام کر کے خود کو ایک کامیاب پولیس آفیسر ثابت کرنا ہو گا۔ محمدصہیب اشرف کو ڈی پی او سرگودھا تعینات کرنے کا پنجاب حکومت کا اچھا فیصلہ ہے وہ اس سے قبل بطور ڈی پی او بہاول پور اور ڈی پی او قصور اچھا کام کرچکے ہیں ان دونوں اضلاع سے سرگودھا میں کام کرنا زیادہ آسان ہے،اچھی کارکردگی کے پیش نظر ہی پنجاب حکومت نے انہیں وہاں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے،وہاں ایک دوایسے واقعات پیش آئے جس سے ڈائریکٹ پنجاب حکو مت بدنام ہورہی تھی۔ایس ایس پی ایڈمن لاہور عاطف نذیر کو ڈی پی او حافظ آباد تعینات کرکے پنجاب حکومت نے ان کیساتھ ناانصافی کی ہے وہ اس سے قبل سیالکوٹ جیسے بڑ ے اضلاع میں متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ کرچکے ہیں،انہیں لاہور سے تبدیل کرکے لاہور پولیس کے سربراہ کیساتھ بھی ناانصافی کی گئی ہے کیونکہ ایک اچھی ہم آہنگی سے مثالی کام جاری تھا۔ان کا شمار انتہائی کامیاب اور ایماندار آفیسر ز میں ہوتا ہے۔اب ہم لاہور میں پیش آنیوالے چند اہم واقعات کا بھی تذکرہ کرتے چلیں۔لاہور میں ایک بار پھر شوٹرز نے سر اٹھا لیا ہے،لاہور پولیس جنہوں نے جرائم کی شرح میں نمایاں کمی لاکر شہر کو امن کا گہوارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ اوپر تلے پیش آنیوالے واقعات نے ایک بار پھر ان کی کار کردگی کو متاثر کرڈالا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں آرگنائزڈ کرائم یونٹ نے شوٹرز اور بدمعاشوں کو نکیل ڈالنے کیلئے مثالی کام کرکے امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانے میں اہم کر   د ار ادا کیا ہے۔ڈی آئی جی عمران کشور اور ان کی ٹیم نے چیلنج سمجھے جانیوالے مقدمات کو ٹریس کرکے شوٹروں کو ان کے انجام تک پہنچانے،ریکارڈ ریکوریاں کرکے وزیر اعلیٰ پنجاب سے متعدد مواقعوں پر شاباش بھی حاصل کی ہے۔اسی طرح ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران نے بھی جرائم کی شرح میں کمی لاکر اپنا لوہا منوایا لیکن اب کی خراب صورتحال ان کیلئے بھی چیلنج بن گئی ہے۔دوسری جانب وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی اب لاہور پولیس کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں۔لاہور پولیس کی اس سے بھی بدنامی ہورہی ہے کہ شہر میں بہت سارے ایسے ایس ایچ اوز تعینات ہوگئے ہیں جن کا ماضی انتہائی گندہ اور خراب ہے۔ڈی آئی جی آپریشنز اگر اس بدنامی سے بچنا چاہتے ہیں تو انہیں تعینات تمام ایس ایچ اوز کے پر و فائل کو ازسر نو چیک کرنے کی اشد ضرورت ہے اس وقت لاہور میں دو درجن سے زائد ایسے ایس ایچ اوز تعینات ہو چکے ہیں جو متعدد بار کرپشن اور قبضے جیسی انکوائریوں میں گنہگار قرار پائے تھے۔وہ ماضی میں بھی سفارش کے بل بوتے پر تعیناتی لینے میں کامیاب رہے لیکن اب کی بار یہ سوچا گیا کہ موجودہ ڈی آئی جی فیصل کامران کے ہوتے ہوئے تعیناتی لینا ان کیلئے خواب بنی رہے گی۔ان کی تعیناتی دیکھ کر پوری فورس بالخصوص ایماندار ایس ایچ اوز ڈی آئی جی فیصل کامران کی فیصلہ سازی پر حیران بھی ہیں اور پریشان بھی، ہم یہ نہیں کہتے کہ رشوت کے عوض ایس ایچ اوز کی تعیناتیاں عمل میں لائی جارہی ہیں البتہ سب کو یہ پریشانی ضرور لاحق ہے کہ فیصل کامران جو سفارش پر یقین نہیں رکھتے پھر نکمے اور پولیس فورس کی بدنامی کا باعث بننے والے ایس ایچ اوز تعیناتی لینے میں کامیاب کیسے ہو گئے ہیں۔کون ایس ایچ اوز کتنا کرپٹ ہے پوچھنے یا بتانے کی ضرورت نہیں سب کا پروفائل موجود ہے۔اب اس ہفتے کی چند ایک اہم خبریں چوہنگ میں شوٹروں کے ہاتھوں وکیل کا دہلیز پر قتل،مناواں میں معزور خاتون سے کاسٹیبل کی بداخلاقی روکنے والے کو کانسٹیبل نے فائر نگ کرکے ذخمی کر ڈالا،باٹا پور میں فائر نگ سے دو بھائی قتل ایک زخمی،شالیمار میں شوٹرز کے ہاتھوں تاجر کا قتل،مزنگ میں شادباغ کے تھانیدار کا وکلاء کے مبینہ تشدد سے ہلاکت کا افسوسناک واقعہ سمیت درجن سے زائد ایسے واقعات ہیں جو انتہائی افسوس ناک ہیں جن پر قابو پانے کیلئے لاہور پولیس کو موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

مزید :

رائے -کالم -