بلوچستان اور حالات کی دلدل، نکلنے کا راستہ کیا ہے؟

منگل کی صبح یہ خبریں آنے لگیں کہ سبی کے قریب کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کرلیا گیا ہے تو مجھ سے میری بیٹی نے پوچھا ٹرین کیسے ہائی جیک ہو سکتی ہےّ ہائی جیک تو ہوائی جہاز ہوتے تھے، پھر اس کا اگلا سوال یہ تھا ٹرین کوئی بس یا ٹرک تو ہوتی نہیں کہ اسے سڑک سے کچے میں اتار کے لے جایا جا سکے،اس نے تو ریلوے ٹریک پر ہی چلنا ہے،پھر یہ کیوں کہا جا رہا ہے کہ ٹرین کو اغواء کر لیا گیا ہے۔ میں جتنا اسے مطمئن کر سکتا تھا کیا، لیکن ظاہر ہے یہ اپنی نوعیت کا پاکستان میں پہلا واقعہ ہے، اس لئے کسی کو سمجھ نہیں آ رہی اسے کیا نام دے۔ اب سوشل میڈیا پر بتایا جا رہا ہے کہ یہ دنیا میں ٹرین ہائی جیک کرنے کا چھٹا واقعہ ہے۔ اس سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ایسے واقعات کتنے کم ہوئے ہیں جبکہ اس کے برعکس جہاز ہائی جیک کرنے کی بیسیوں وارداتیں ہو چکی ہیں اس سے پہلے کراچی یا پنجاب سے کوئٹہ جانے والی مسافر بسوں کو راستے میں روک کر مسافروں کو نشانہ بنانے کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ خاص طور پر پنجابیوں کو شناخت کرنے کے بعد شہید کرنے کے متعدد واقعات ہو چکے ہیں۔ا بھی چند روز پہلے بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہوا تھا۔ تاہم ریلوے کے سفر کو محفوظ سمجھا جاتا تھا۔ بلوچستان میں ریلوے کا ایک طویل ٹریک ہے اکثر علاقے ویران ہیں اور ریلوے لائن پہاڑوں کے درمیان سے بھی گزرتی ہے۔ اتنے لمبے ٹریک پر ہر وقت تو ہر جگہ پہرہ نہیں بٹھایا جا سکتا، تاہم جب کوئٹہ جانے والی گاڑیاں بلوچستان کی حدود میں داخل ہوتی ہیں تو ان کی سیکیورٹی بڑھا دی جاتی ہے۔ یوں یہ سفر محفوظ طریقے سے مکمل ہوتا رہا ہے، مگر اب اس واقعہ کے بعد جو عدم تحفظ پیدا ہوا ہے اسے ختم کرنے کے لئے بہت سے اقدامات کرنا ہوں گے۔ بلوچستان سے پاکستان کے دیگر حصوں کا زمینی رابطہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ کسی تنظیم یا دہشت گردوں کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی وہ اس طرح اپنی عملداری قائم کرکے اپنی کامیابی کا جشن منائیں، جب بسوں سے اتار کر معصوم مسافروں کو شناخت کے بعد گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا تھا تو اس وقت بھی ملک کے سنجیدہ حلقوں نے حکومت پر زور دیا تھا وہ ایسے واقعات کے سدباب کے لئے موثر حکمت عملی بنائے، مگر ہم چونکہ بیانات کے ماسٹر ہیں، اس لئے ہر واقعہ کے بعد بیان بازی کرکے کام چلاتے رہے ہیں، اب اس ٹرین پر حملے کو بھی اگر ہم نے سنجیدہ نہ لیا اور صرف روائتی بیانات کی حد تک ردعمل دے کر رات گئی بات گئی، کے مصداق اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے تو پھر ایسی کوئی اور واردات دہشت گردوں کو مزید اپنا ایجنڈا مسلط کرنے کا موقع دے گی۔ اس واقعہ کے بعد بلوچستان میں دہشت گردوں اور بیرونی آقاؤں کی شہ پر علیحدگی کا شوشہ چھوڑنے والوں کے خلاف ایک بڑا آپریشن ناگزیر ہو چکا ہے۔ یہ معاملہ سیاست سے بہت آگے کا ہے۔ اس میں براہِ راست ریاست کی سالمیت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایک سنگین جرم سرزد ہوا ہے، جس کی سزا دہشت گردوں، ان کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کو ملنی چاہیے۔اس حوالے سے ریاست کسی قسم کی کمزوری کا مظاہرہ نہ کرے اور پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پوری قوت سے ایسے فتنے کو کچل دیں جو بلوچوں کے حقوق کی آڑ میں دہشت گردی کررہا ہے۔
ایک پہلو تو یہ ہے جس پر دورائے نہیں تاہم دوسرا پہلو بلوچستان کے سیاسی حالات ہیں۔ بلوچستان میں اس وقت قیادت کا ایک خلاء موجود ہے۔ وہ دور اب نہیں رہا کہ سرداروں اور قبیلے کے سربراہوں کی چھتری تلے کسی نظام کو چلایا جاتا تھا۔ بگٹی، مری، مینگل، سوری اور دیگر قبائل کے سردار سیاست میں آگے آتے تھے اور عوام انہیں قبول بھی کرلیتے تھے یہ سرداری نظام چل سکتا تھا اگر یہ سردار سیاسی حکومتوں میں آکر عوام کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کرتے۔ ان کی محرومیوں کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کرنے،بلوچستان میں اصلاحات کا ایجنڈا لاتے، لوگوں کو اس بات کا احساس دلاتے کہ اقتدار میں ان کا حصہ بھی ہے اور فیصلے ان کی مرضی سے ان کے حق میں کئے جاتے ہیں۔ آج یہ سردار بے بس نظر آتے ہیں۔ اب وہ بلوچی عوام کے حق میں آواز اٹھاتے بھی ہیں تو عوام ان کا یقین نہیں کرتے۔ اب نئی قیادت ان کی جگہ لے چکی ہے۔ ماہ رنگ بلوچ جیسے نئے کردار سامنے آ گئے ہیں۔ یہ شعور بھی آیا ہے کہ سردار جمہوریت کے نام پر اپنی سرداری چمکاتے رہے ہیں، انہوں نے کبھی بلوچستان کے حقوق کی جنگ نہیں لڑی۔ وفاق کا حصہ ہونے کے باوجود،وفاق سے اپنا حصہ اور حق نہیں مانگا بس اپنی تجوریاں بھرتے رہے۔ اب یہ بہت نازک مرحلہ تھا جب روائتی سرداری سیاست دم توڑ رہی تھی اور بلوچستان میں نئی عوامی سیاست اُبھر رہی تھی، چند سرداروں اور چند قبیلوں سے ڈیل کرکے بلوچستان کا نظام چلانے والوں کو اس بدلے ہوئے منظر کا ادراک کرنا چاہیے تھا،جو نہیں کیا گیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس خلاء کو پُر کرنے کے لئے وہ قوتیں متحرک ہو گئیں جو بلوچستان پر نظریں جمائے ہوئے ہیں اور جنہیں بیرونی طاقتوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ بلوچستان کے اندر اس سنگین واقعہ کے خلاف آوازیں نہیں اُٹھ رہیں۔ اکیلے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی یہ پیغام دے رہے ہیں کسی دہشت گرد کو نہیں چھوڑیں گے۔ پہلے بلوچستان میں کوئی بڑا واقعہ ہوتا تھا تو وزیراعظم،وزیرداخلہ اور دیگر بڑے عہدوں والی شخصیات کوئٹہ پہنچ جاتی تھیں، اب ایسا نہیں ہوا تو اس کی وجہ بلوچستان کا وہ سیاسی خلاء ہے جو اسلام آباد کی گرفت کو کمزور کررہا ہے۔
کوئی ایک ایسا گرینڈ ڈائیلاگ تو ہونا چاہیے جس میں قوم پرست بلوچی جماعتوں کی قیادت سے ان محرومیوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی جائے جن کو بنیاد بنا کر یہ تاثر دیا جاتا ہے جیسے پورا بلوچستان احتجاج کررہا ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے اور آج بھی عام بلوچی کسی منفی نعرے کا شکار نہیں ہوتا اور نہ ہی پاکستان کے سوا کسی دوسری طرف دیکھنے کو تیار ہے۔اس وقت ہر کوئی پوچھتا ہے بلوچستان کے بارے میں ہماری ریاستی پالیسی کیا ہے۔ کیا وہی پرانی ہے کہ ہم ایک نمائندہ نظام بنا کر دے دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ عوام اسے تسلیم کرلیں۔ اگر تسلیم بھی کرلیں تو کیا اس نظام کے ذریعے ان محرومیوں کا ازالہ کرنے کی کوئی کوشش بھی کی جاتی ہے جو بلوچستان کا دکھ بنی ہوئی ہیں۔ اس بنیادی بات کو تسلیم کیوں نہیں کرلیا جاتا کہ مقامی وسائل مقامی آبادی کے لئے استعمال ہونے چاہئیں۔ گوادر میں ترقی کے ثمرات سے اگر بلوچوں کو حصہ دینے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اسے پورا کرنے میں کیا ہرج ہے۔ بلوچستان میں روزگار، صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کی ترقی جیسے بنیادی مطالبات پر کیوں توجہ نہیں دی جاتی۔ایک عام بلوچ کے اندر جب تک یہ احساس پیدا نہیں کیا جاتا کہ ریاست اس کے ساتھ کھڑی ہے اور اسے بنیادی حقوق دے رہی ہے، اس وقت تک اس کی سوچ کو علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف متحرک نہیں کیا جا سکتا۔ اس حقیقت کو جتنی جلد تسلیم کرلی اجائے اتنا ہی بہتر ہے۔