کرامات کے نام پہ قتل
شاعر کو جب دامن پہ کوئی چھینٹ اور خنجر بھی بے داغ نظر آیا تو اسے قتل پر بھی کرامت کا ہی گمان گزرا۔یہاں تو ہاتھ کی صفائی نہ بھی ہو تو ہاتھ صفا چٹ ہی کہلاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہاتھ کی صفائی ہر صفائی کی بنیاد ہے۔پیری،فقیری سے لے کر گداگری تک ہاتھ کی صفائی ایسی چمک دمک سے دکھائی جاتی ہے کہ دماغ ماؤف ہو جاتا ہے۔جرم کے کھیت بنجر زمین پر بھی خوب پھل پھول رہے ہیں۔پورا شہر بھکاریوں سے اٹا پڑا ہے۔ویسے دیکھا جائے تو ہم سب بھکاری ہی ہیں لیکن کامیاب وہ ہے جسے مانگنے کے فن پر دسترس ہے۔اسی کا قتل کرامات سے منسوب ہے۔عام عوام تو اپنے تک لین دین کے ضابطوں میں الجھے ہوئے ہیں۔یہ بے سوچے سمجھے ہجوم کی نفسیات ہے جو دوسروں کے جوتوں میں اپنا پاؤں پھنسائے ناواقف ڈگر پر دوڑے چلے جاتا ہے۔نتیجے میں مصلحت اور تدبر کی فصل ویران ہو جاتی ہے۔یوں لگتا ہے وحشی جانوروں کا گروہ سوچ و فکر اور تدبر کے کھیت لوٹ لے گیا۔معاشرے کے یہ قزاق کہیں میڈیا کی صورت معصومیت پر کمند ڈالتے ہیں اور کہیں معاشرے کی صورت بدلنے کے زعم میں عجیب و غریب اصطلاحات کے ساتھ ماورائے عقل دلائل بھی دیتے ہیں۔ کھیت کسان کی زندگی ہے۔کھیت کی زمین تیار کرنے اور بیج بونے سے لے کر فصل تیار ہونے تک کسان کی آنکھیں نگران اور اس کے تمام حواس بے دار ہوتے ہیں کہ کہیں ذرا سی غفلت اس کی تمام محنت برباد نہ کر دے۔ وہ ہر لمحہ دوا و دعا کی طاقت پر یقین رکھتا ہے تب کہیں جا کر اس کی محنت رنگ لاتی ہے۔ہم سب کسی نہ کسی صورت کسان کی زندگی جیتے ہیں۔مستقبل، اولاد، کامیابی، کاروبار، روزی روٹی اور وہ تمام وسائل جو ہماری زندگی کا بوجھ اٹھاتے ہیں، ہماری فصلیں ہیں۔ان فصلوں کی آبیاری میں ہم جی جان ایک کر دیتے ہیں۔ لیکن جب نتیجہ آتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگوں کی فصل بہت اچھی ہوئی ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کو بھر پور محنت کے باوجود مایوسی سہنا پڑی۔ یہ نتیجہ مایوس کن سہی لیکن خلاف عقل نہیں۔ یہ معاملہ ان نادیدہ بیجوں سے متعلق ہے جن کے بارے میں ہی کہا گیا ہے۔”جو بوؤ گے وہی کاٹو گے“۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنے رویوں سے ببول کے کانٹے بو کر بدلے میں گلاب کے پھولوں کی توقع رکھنا عبث ہے لیکن ہم تو جرائم،جہالت اور شر انگیزی کے بیج بونے اور ان کی آبیاری میں مشغول ہیں۔دوسروں کی تحقیر اور عدم برداشت وہ بیج ہیں جو معاشرے میں منتقم مزاجی کی فصل اگانے میں معاونت کرتے ہیں۔ کہیں مدرسوں میں مُلّا کی بے رحمی و بدمزاجی کی فصل میں محرومی کے بیج کے ساتھ ساتھ جہالت و کم علمی نیم مُلّا کی صورت سامنے آتی ہے جس کے شر سے ہم سب کو اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کی سعی کرنا پڑتی ہے۔لیکن اس بھیک میں اپنی مرضی کے سکے حاصل کرنا کس قدر دشوار ہے۔یہ احساس قدم قدم پر دامن گیر ہے۔یہ بے شعور اور اشیاء کی ماہیت سے ناواقف مہرے ایسے بیج ہیں جو مستقل کے کھیت بنجر کر دیں گے۔ پھیلے ہاتھ ہاجرہ مسرور کے ”دو ہاتھ“ بن چکے ہیں۔اور کلبلاتا ہجوم منٹو کا ”نعرہ“ جس میں اپنے اپنے مقام پر نہ تو ہم رہے نہ ہی تم رہے۔ ہم یہ کیوں نہیں بتاتے کہ بیٹا اپنے راستے سے ہٹ کر دوسروں کے رستے میں آنا لاقانونیت ہے۔ دوسروں کو فصل کی تیاری پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کو اپنی مرضی کے بیج بونے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔یہ چھوٹی اور معمولی غلطیاں جرائم کے کھیت تیار کرتی ہیں۔
جرائم کی ایک لمبی فہرست میں پورا معاشرہ دفن ہے۔ آپ کسے پکڑیں گے، کس کی گردن زدنی کرنا ہو گی یا وہ کیا عمل ہو گا جس کی وجہ سے حقیقی تبدیلی آئے گی۔ جرائم کے ان کھیتوں میں فصل تو دھڑا دھڑ پیدا ہو رہی ہے لیکن مسائل کے کیڑوں کو مارنے کے لیے کوئی سپرے نہیں۔ کبھی تو لگتا ہے کہ ہماری آنکھوں کو ایک مخصوص منظر دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نہ نیا منظر ہو گا اور نہ ہی تبدیلی لائی جائے گی۔ اہل ہوس بھی جانتے ہیں کہ خربوزوں کے کھیت کو اجاڑنے والے جانور کس نسل سے ہوتے ہیں۔ ایک واقعے سے توجہ ہٹانے کے لیے نیا موضوع پلانٹ کر لینا بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس فلم کے سارے منظر پرانے ہیں اور نئی کہانی کے متلاشیوں کو توجہ کی نظر چاہئے اور کم از کم یہ دیدہ بینا کسی کے پاس نہیں۔
ایک پرانا مدفن جس میں دفن ہیں لاکھوں امیدیں
چھلنی چھلنی سینہ آدم دیکھنے والے دیکھتا جا
(قتیل شفائی)