حاضرین خوبصورت فرعون ملکاؤں کو سامنے دیواروں پر چلتا پھرتا دیکھ مبہوت ہوگئے، قلو پطرہ، آپس کی سازشوں اور جنگوں کے مناظر بھی دکھائے گئے
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:60
فلم پروجیکٹر بڑی تیزی سے گزرے ہوئے زمانے کی تاریخ کو سامنے دیوار پر منعکس کر رہا تھا،وہ اس دور کے مرکزی کرداروں کو چند لمحوں کے لئے سامنے لاتا اور احاطے میں لگے ہوئے بڑے بڑے سپیکروں پر ان کا مختصر سا تعارف کروا کر آگے بڑھ جاتا۔
ویسے تو یہاں بہت سارے فرعونوں کے بارے میں بتایا گیا، لیکن زیادہ تفصیل سے2 بڑے بادشاہوں یعنی رعمیسس اول اور رعمیسس دوم کا ذکر ہوا۔ وہ غالباً اس لئے بھی کہ ان کے دور حکومت کافی طویل تھے، اور ان کے بارے مبں بتانے کے لئے بڑا کچھ تھا۔ کنگ توت ایک اور بادشاہ تھا جو یہاں تفصیلی گفتگو کا موضوع بنا۔وہ چھوٹی سی عمر میں ہی دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔ تاہم وہ دور جدید کا اس لئے بھی ایک جانا پہچانا نام بن گیا تھا کہ اس کا مدفن کوئی 70 سال پہلے ایسی حالت میں دریافت ہوا کہ وہ ابھی نامکمل ہی تھا،لیکن پھر بھی اس کے اندر سے اتنے نوادرات اور زیورات برآمد ہوئے تھے کہ دنیا کے کئی عجائب گھر اس خزانے سے مالا مال ہوگئے۔ مجھے چونکہ کل اس فرعون کا یہ دریافت شدہ مدفن دیکھنے جانا تھا، اس لئے میں نے اس کی تاریخ بھی بڑی دلچسپی سے دیکھی اور سُنی۔
اورجب ملکہ قلوپطرہ، ملکہ نفرتاری اور ملکہ نفرتیتی کا ذکر ہوا اور ان کے حسن کے قصیدے شروع ہوئے تو حاضرین ان خوبصورت فرعون ملکاؤں کو سامنے دیواروں پر چلتا پھرتا دیکھ مبہوت ہوگئے اور چشم تصور میں حسن کی ان دیویوں کو ان محلات میں چہل قدمی کرتے اور اپنی سکھی سہیلیوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے دیکھتے رہے۔ پھر قلو پطرہ کا وہ روپ بھی دکھایا گیا جب وہ باری باری اپنے دو بھائیوں سے شادی کرکے بادشاہت پر قابض ہوئی تھی۔ اس دلچسپ تاریخ اور اس کے طرزِ بیان نے سب کو اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا اور حاضرین پوری یکسوئی سے اس خوبصورت شو سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
اس دوران ان کی آپس کی سازشوں اور جنگوں کے مناظر بھی دکھائے گئے اور کچھ معاشرتی سرگرمیوں کا ذکر بھی ہوا۔ اس دور کی رقص و موسیقی کی صدائیں بھی ایک بار پھر فضاؤں میں گونجیں۔ شو کے آخری حصے تک پہنچتے پہنچتے ایک ایک کرکے سارے فرعون بادشاہ رخصت ہوئے۔ ان کی لاشیں حنوط کرنے کے بارے میں بھی کچھ بتایا اور دکھایا گیا اور پھر ان کی آخری آرام گاہوں تک پہنچا کر ان کو ایک بار پھر زندہ ہونے کی آس پر تاریخ کے حوالے کرکے سب لوگ رخصت ہوگئے۔
بعدازاں یونانیوں اور رومنوں کی مصر میں آمد اور اس پر سازشوں کے ذریعے قبضے کی تفصیل بھی بیان کی گئی۔ وہ مشہور زمانہ منظر نامہ بھی دکھایا گیا جب اس کے کچھ ساتھیوں نے ایک سازش کے تحت جولیس سیزر کو قتل کروایا تھااور آخری اور مہلک وار اس کے چہیتے بروٹس نے کیا تھا، جس کو اس نے ایک اچھے د وست سے بڑھ کر اپنے بیٹے کی طرح چاہا تھا۔ اس کے خنجر کے مہلک وار سے زخمی ہونے کے بعد سیزر نے انتہائی بے یقینی اور صدمے کے عالم میں پیچھے مڑ کر اسے دیکھا اور کہا تھا کہ ’’بروٹس کیا تم بھی!“ اس کا کہا ہوا یہ مکالمہ بعد ازاں تاریخ کے اس المناک باب کا ایک حصہ بن گیا تھا۔
ساڑھے آٹھ بجے کے قریب شو ختم ہوا اور ایک بار پھر احاطے اور مندر کی روشنیاں جگمگا اٹھیں اور لوگ اس شو پر تبصرے کرتے ہوئے آہستہ آہستہ منتشر ہونے لگے۔
باہر نکلتے ہی احمد نے پوچھا کہ کیسا لگا؟ مجھے یقینا یہ شو بہت اچھا اور معلوماتی لگا تھا اس لئے میں نے ویسا ہی بتا دیا کہ ابھی تک کانوں میں ان لازوال کرداروں کی آوازیں گونج رہی ہیں۔ وہ یہ سن کر مطمئن ہوگیا۔ اگلا شو فرانسیسی زبان میں پیش ہونا تھا، تو اس کے لئے آئے ہوئے لوگ آگے بڑھے اور ہماری خالی کی گئی جگہوں پر کھڑے ہو کر انتظار کرنے لگے۔ ہم بھی مندر سے باہر آگئے اور الأقصر واپس آگئے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں