عمران خان کی منجمد مقبولیت

 عمران خان کی منجمد مقبولیت
 عمران خان کی منجمد مقبولیت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اپریل 2022سے عمران خان کی مقبولیت منجمد ہے۔ ان کا فین کلب بڑھ کر اسٹیبلشمنٹ، نواز شریف اور آصف زرداری کو نہیں کھا سکا، بلکہ دیکھا جائے تو عمران خان کی پارٹی کو جس طرح مولانا فضل الرحمٰن کے در پر ناک رگڑناپڑ رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ محمود خان اچکزئی کا دم بھرنا پڑ رہا ہے، وہ عمران خان کے فین کلب کے لئے ناقابل یقین ہے۔ خیال یہ کیا جا رہا تھا کہ فروری 2024کے انتخابات میں پاکستان بھر میں پانچ کروڑ سے زائد نوجوان عمران خان کو دوبارہ اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھانے پر کامیاب ہو جائیں گے،لیکن ایسانہ ہو سکا، عمران خان پنجاب میں نواز شریف اورسندھ میں آصف علی زرداری کی سیاسی حیثیت کو اکھاڑ کرپھینک نہیں سکے اور صرف خیبر پختونخوا میں ان کی پارٹی کو جائے اماں مل سکی۔ 

نوجوانوں کے ساتھ ویسے بھی ایک مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ بنانے کی بجائے بگاڑنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ 1947میں انگریز سامراج کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی تو 1970میں فیلڈ مارشل ایوب خان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیاتھا اوراب حالیہ دنوں میں شیخ حسینہ واجد کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کردیا۔ یعنی نوجوان کسی کے پیچھے پڑ کر اس سے اقتدار چھین تو لیتے ہیں مگر کسی کو کاندھوں پر اٹھا کر مسند اقتدار پر بٹھا نہیں سکتے، عمران خان کے ساتھ بھی فروری 2024کے انتخابات میں کچھ ایسا ہی ہوا کہ وہ پانچ کروڑ نوجوان جن پر سابق سفیر ملیحہ لودھی کو بھروسہ تھا کہ عمران خان کو ایوان وزیر اعظم میں لے جائیں گے، وہ صرف کے پی میں اپنے وجود کی جھلک دکھا سکے اور باقی ملک میں اپنی خرمستی کے سبب پی ٹی آئی کا پرنا تار تار کر بیٹھے۔

اسی لئے تو عمران خان کی مقبولیت اپریل 2022 کے نقطے پر منجمد ہو چکی ہے۔ اس دوران ان کے پیچھے کارفرما قوتوں نے اگرچہ ایک ایسا ماحول بنائے رکھنے کی کوشش کی جو انہیں کاغذوں میں پاکستان کا سب سے مقبول اور ان کی پارٹی کو ملک کی سب سے بڑی پارٹی کا تاثر بنائے رکھے مگر دوسری جانب سوشل میڈیا کے سست پڑجانے اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کی گرفتاری سے عمران خان کی مقبولیت کا کاغذوں میں بھی بھانڈا پھوٹ گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جنرل فیض حمید وہ طوطا تھا جس میں پی ٹی آئی کے جن کی جان تھی۔ جونہی اسٹیبلشمنٹ نے اس کی گردن مروڑی، پی ٹی آئی کا جن اپنی گردن سنبھالتا ہوا درد سے ابلتی آنکھوں کے ساتھ عوام کے سامنے گرتا پڑتا لٹکنیاں لیتا پھررہا ہے اور لگتا ہے کہ اب گرا کہ اب گرا!

بنظر غائر سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ، نون لیگ، پیپلز پارٹی، اور ایم کیو ایم اس وقت ایک ہی لڑی میں پروئے کھڑے ہیں۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمٰن اور محمود خان اچکزئی بھی ان کی لائن لیتے ہوئے عمران خان کی ٹیڑھی میڑھی لائن سیدھی کرتے جا رہے ہیں۔ اگر حکومت سرکاری ملازمین کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے آئینی ترمیم کو پاس کرواگئی تو فوج کے بعد عدلیہ میں موجود باغی بھیڑوں کو بھی سیدھی راہ چلنا پڑے گا۔ پیچھے بچ جانے والا میڈیا اتنا خطرناک نہیں رہے گا جتنا تب تھاجب اسے سوشل میڈیا کی کمک حاصل تھی۔ خاص طورپر وزیر اعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور نے میڈیا پر جو تبرا کیا ہے اس نے عمران خان کی راہ میں  مزید کانٹے بو دیئے ہیں اور اب میڈیا کے مخصوص حلقوں کے پاس پی ٹی آئی کی حمائت نہ کرنے کا ٹھوس جواز آگیا ہے۔یہ نشہ آنے والے دنوں میں مزید بڑھے گا کیونکہ بیرسٹر گوہر خان علی امین گنڈا پور کی زبان کی جس قدر چاہے صفائی کر لیں، ان کے دل کا میل نہیں دھو سکیں گے۔ دوسری جانب بعض لوگ یہ بھی مانتے ہیں کہ علی امین گنڈاپور بالآخر عمران خان کی مقبولیت کی جڑوں میں بیٹھ جائیں گے اور وہ جیل سے نکلیں گے تو پوری طرح گول ہو چکے ہوں گے اور اسٹیبلشمنٹ کو چبھنے والی نوکیں گھِس چکی ہوں گی۔

ایک عمران خان ہی کیا، ان سے قبل نواز شریف اور ان سے بھی قبل بے نظیر بھٹومرحوم کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بنا کر چلنا پڑا تھا۔ وہ چاہے 80کی دہائی میں بے نظیر بھٹو کی مقبولیت ہو، 90کی دہائی اور بعد میں 2017میں نواز شریف کا لانگ مارچ ہواور اپریل 2022کے بعد عمران خان کی مقبولیت کا گراف ہو، اسٹیبلشمنٹ نے سب الجھے ہوئے دھاگوں کو سلجھالیا ہے۔ یہ عوام ہیں جو اپنے حق جمہوریت کے لئے کبھی ایک تو کبھی دوسرے رہنما کی جانب دیکھتے ہیں اور رہنماؤں کا حال یہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے رہنماؤں کے لئے طاقت کا مرکز عوام نہیں بلکہ کہیں اور ہے۔اس کا ایک اور مطلب بھی ہے کہ جب تک عوام اکٹھے ہو کر اپنی طاقت واپس نہیں لیں گے تب تک یونہی کبھی ایک تو کبھی دوسرے لیڈر کے پیچھے ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے بلکہ تب تک یونہی نرسریوں میں قیادت کو اگایا جاتا رہے گا جس کی تراش خراش ان کے اگانے والے کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔ 

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تیس پینتیس برسوں میں بڑی سے بڑی تحریک بھی اسٹیبلشمنٹ سے گفت و شنید پرمنتج ہوئی ہے۔ کوئی بھی تحریک اسٹیبلشمنٹ کے بیریئر کو کراس کرکے آگے نہیں بڑھ سکی۔ دوسرے لفظوں میں 

اس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھہر جاتی ہے 

جیسے پانا ہی اسے اصل میں مرجانا ہے

والی صورت حال ہے۔ ایسے میں اگر ہم جان کی امان پاتے ہوئے عرض کررہے ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت اپریل 2022 پر منجمد ہوگئی ہے تو اس میں ایک آبلہ پا کی طرح سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں!

مزید :

رائے -کالم -