خیال کا سفر، توارد یا چوری چکاری
کبھی کبھار سہ ماہی، ششماہی یا سال بعد، خیال کا سفر، توارد، سرقہ، تحریف، ترمیم، ٹکراؤ، بُھول چوک یا سردا مری چوری سینہ زوری یعنی چوری چکاری کے حوالے سے مختلف اشعار کی حرمت بحال کراتا رہتا ہوں اور ’’حق بہ حقدار رسید‘‘ کے تحت شعر کی اصل شکل اور اولین خالق کی تلاش کے بعد ان اشعار کو اس کالم کے ذریعے اپنے قارئین کے ذوقِ مطالعہ اور طبعِ رسا کو مہمیز دیتا رہتا ہوں کہ دیکھئے شعر و شاعری میں بھی کیسے کیسے گھپلے روا رکھے جا رہے ہیں۔
آج کے دور میں جبکہ ہر چیز بلا استثناء نخالص ہے، خالص ادبی کاوش کہاں سے آئے۔ یار لوگ شہرت و ناموری کے لئے ’’شارٹ کٹ‘‘ کے رسیا ہو گئے ہیں، بہرحال اصلاحِ احوال کے لئے، کبھی کبھار ہی سہی، چل میرے خامے بسم اللہ:ملاحظہ فرمایئے:
آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب
باندھ کے رکھا ہے تم نے جو وہ مال اچھا ہے
داغ دہلوی
آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے
امیر مینائی
تیرے غم، تیرے انتظار کے غم
ہم کو راس آئیں گے پیار کے غم
عامرحبیب
یہ الگ بات کہ غم راس ہے اب
اس میں اندیشہء جاں تھا پہلے
ناصر کاظمی
جو چاہے سجدہ گزارے، جو چاہے سر پھوڑے
وہ بُت ہے یا وہ خدا ہے مجھے نہیں معلوم
احمد نوید
وہ بت ہے یا خدا دیکھا نہ جائے
کہ اس کا دیکھنا، دیکھا نہ جائے
احمد فراز
اک عمر کٹی حسرت و ارماں میں جھلستے
ارمان کو اب اوڑھ کے سو جائیں گے ہم لوگ
(عبدالرؤف) تائب اکبر آبادی
رہتا نہیں انسان تو مٹ جاتے ہیں غم بھی
سو جائیں گے اک روز زمیں اوڑھ کے ہم بھی
احسان دانش
ہوش و حواس تاب و تواں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
داغ دہلوی
جان و دل، ہوش و خِرد، سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو ساماں گیا
رضا بریلوی
رحمت نے مجھ کو درد و الم سے بچا لیا
میں نے بھی اپنا سویا مقدر جگا لیا
محمد علی ظہوری قصوری
نعتِ نبی کو جب سے وظیفہ بنا لیا
سوئے ہوئے نصیب کو میں نے جگا لیا
ناصر زیدی
وصل میں چاہنے لگتا ہوں پھر بچھڑ جاؤں
بچھڑ کے تم سے ملنے کی آس رکھتا ہوں
بہار ہو کہ خزاں دونوں سے دوستی کرکے
عجیب شخص ہوں دل کو اُداس رکھتا ہوں
فرح یعقوب
چند کلیاں نشاط کی چُن کر
مدتوں محوِ یاس رہتا ہوں
تجھ سے ملنا خوشی کی بات سہی
تجھ سے مل کر اُداس رہتا ہوں
ساحر لدھیانوی
وصل اُس کا نصیب ہو شاید
ہم نے خود کو قطار میں رکھا
کرشن کمار طُور
وصل اُس کا ذرا نصیب کرے
میر، جی چاہتا ہے کیا کیا کچھ
میر
میری وفا کا اُس نے کچھ یُوں صِلہ دیا ہے
منزل بھی اُس نے چھینی رستہ بُھلا دیا ہے
زیبا سعید
مری وفا کا دیا خوب یہ صلہ مجھ کو
نظر میں سب کی تماشا بنا دیا مجھ کو
ناصر زیدی
دُوئی منظور تھی اُس کو، جُدا جو کر دیا اُس نے
وگرنہ با خدا، بندہ نہ ہوتا، مَیں خدا ہوتا
(غالبِ سندھ) فیض بخشا پوری
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
مرزا غالب
سب پہ جس بوجھ نے گرانی کی
مَیں اُسے ناتواں، اُٹھا لایا
میر تقی میر
آسماں بارِ امانت نتوانست کشید
قرعہِ فال بنامِ منِ دیوانہ زَوند
حافظ شیرازی
ان سے محبتوں کا صِلہ مانگ رہے ہیں
اک بے وفا سے یہ کیا مانگ رہے ہیں
لتاحیا(انڈیا)
اک بے وفا سے عہدِ وفا کرکے آئے ہیں
اب آ کے سوچتے ہیں یہ کیا کرکے آئے ہیں
ناصر زیدی
کچھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کچھ مینوں مَرن دا شوق وی سی
منیر نیازی
کجھ کیچم لوک وی ظالم ہن
کجھ سانوں مَرن دا شوق وی ہا
(سرائیکی شاعر)سائیں مستان
کتنے دل کش ہو تم کتنا دل جُو ہوں میں
کیا قیامت ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
جون ایلیا
ہائے یہ لوگ ، پری چہرہ لوگ
ہائے ! یہ لوگ بھی مر جائیں گے
ساحر صدیقی
میں نے کہا کہ حُسن کو اپنے چُھپا کے رکھ!
اُس نے کہا کہ تو بھی تو نظریں جھکا کے رکھ!
اُس نے کہا کہ تیرا ارادہ عجیب ہے
مَیں نے کہا کہ وصل کا لمحہ قریب ہے
صفدر علی خان انشا
مزاحیہ مجموعہ کلام ’’آبیل مجھے مار‘‘ مطبوعہ 2017ء صفحہ 78/77
مَیں نے کہا کہ حُسن کو اپنے چھپا کے رکھ!
اُس نے کہا تُو اپنی نگاہیں جُھکا کے رکھ!
مَیں نے کہا کہ وصل کا امکان ہے کبھی؟
اُس نے کہا چراغِ تمنا جلا کے رکھ!
ناصر زیدی
[مجموعہ غزل ’’التفات‘‘ مطبوعہ 2003ء]
ایک چہرے پہ سجا کر کئی چہرے اکثر
لوگ ملتے ہیں سرِ راہ بڑے پیار کے ساتھ
ڈاکٹر ہارون رشید تبسم
جب بھی چاہیں نت نئی صُورت بنا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ
حمایت علی شاعر
یقیناًپک رہا ہے کوئی لاوا
اُداسی چار سُو پھیلی ہوئی ہے
ڈاکٹر ایوب ندیم
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر!
اُداسی بال کھولے سو رہی ہے
ناصر کاظمی