لہو لہو غزہ اور اقوام عالم کی بے حسی

  لہو لہو غزہ اور اقوام عالم کی بے حسی
  لہو لہو غزہ اور اقوام عالم کی بے حسی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مجھے اِس بات پر خوشی ہے کہ ممتاز عالم دین مفتی محمد تصدق حسین رضوی نماز جمعہ سے پہلے حاضرین سے جو خطاب فرماتے ہیں، اس میں قومی، عالمی مسائل اور بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں پر ہونے والی زیادتیوں کا کچھ اس انداز میں ذکر کرتے ہیں کہ سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔اس مرتبہ ان کی گفتگو کا موضوع غزہ کے مظلوم مسلمان تھے۔انہوں نے کہا کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عنقریب غیر مسلم مسلمانوں پر ایسے ٹوٹ پڑیں گے،جیسے لوگ کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایک صحابی ؓ نے عرض کی! کیا ہم اس وقت تعداد میں تھوڑے ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا، نہیں۔اس وقت مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گی، لیکن مسلمان بزدل ہوں گے، اللہ تعالیٰ دشمنوں کے سینوں سے مسلمانوں کا خوف نکال دے گا اور مسلمانوں کے دِلوں میں ”وہن“ ڈال دے گا۔ ایک اور صحابی ؓ نے عرض کی! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ”وہن“ کیا چیز ہے؟ فرمایا: دنیا کی محبت اور موت کا خوف۔ میں سمجھتا ہوں کہ غزہ کی منظر کشی کی اس سے بہتر کوئی مثال نہیں دی جا سکتی۔ اِس وقت اسرائیل بھیڑیے کی مانند درندگی پر اُتر آیا ہے، صبح و شام اہل غزہ پر اسلحہ و بارود کی بارش برسا رہا ہے۔ جنگوں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں، لیکن صیہونی اور استعماری قوتیں غرورا ور طاقت کے نشے میں بدمست ہاتھی کی طرح سب کچھ روندے چلی جا رہی ہیں۔ نہتے،مظلوم اور بے بس فلسطینی مسلمانوں پر مسلسل کئی ماہ سے کارپٹڈ بمباری ہو رہی ہے،مسجدیں، سکول، مدارس، ہسپتال اور رہائشی مکانات کو منصوبہ بندی کے تحت تباہ و برباد کیاجارہا ہے۔ غزہ کے مسلمانوں کے قتل عام کے لئے وحشت ناک اور اذیت ناک طریقے آزمائے جا رہے ہیں، امریکہ،برطانیہ،فرانس اور دیگر غیر مسلم بڑی طاقتیں اسرائیل کی پشت پناہی کے لئے شب و روز اسلحہ و بارود کے ڈھیر لگا رہی ہیں۔تمام تر رعونت و تکبر کے باوجود حماس کے مجاہدین نے پچھلے سوا سال سے عالمی طاغوتی طاقتوں کو جو ناکوں چنے چبوائے ہیں ان کی اس جرأت و استقامت کو تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ القدس کی حرمت و آزادی کے لئے غزہ کے مسلمان جان،مال،اولاد،گھر بار، عزیز و اقارب کی جانی و مالی قربانی کے باوجود پہاڑوں سے بلند حوصلہ لئے میدان جنگ میں موجود ہیں، پیاس سے بلکتے بچوں کے سامنے واٹر ٹینک بم سے اڑا دیے گئے،کئی دِنوں سے بھوکی بہنوں کے سامنے کھانے کے سامان سے لدے ٹرک میزائل مار کر راکھ کے ڈھیر بنا دیئے گئے،زخموں سے چور جوانوں اور بوڑھوں پر بارود کی آگ برسا کر اُنہیں بیدردی سے شہید کر دیا گیا،یخ بستہ راتوں میں محض خیموں کا سہارا بھی چھین لیا گیا، ہر ظلم و جبر اور تکلیف و تشدد کے باوجود نہ غزہ کے مسلمانوں کے حوصلے پست کیے جا سکے اور نہ ہی انہیں مسجد اقصیٰ کی حفاظت سے پیچھے ہٹایا جا سکا۔اس تمام قضیے کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ یہود و ہنود جدید ٹیکنالوجی کی آگ سے اہل غزہ کو راکھ کا ڈھیر بنانا چاہتے ہیں، لیکن اسلامی ممالک کے بے حس حکمران ایسے بے سدھ پڑے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ مصر شام اور لبنان کے بے ضمیر حکمرانوں نے یہودیوں کی خیر خواہی کے لئے مسلمانوں پر تمام راستے مسدود کر رکھے ہیں، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے حکمران امریکہ کے خوف سے یہودیوں سے دوستی نبھا رہے ہیں،مسلم ممالک کے حکمران سب ”وہن“کی بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں اور ان کی یہ بیماری دن بدن شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اہل ِ غزہ نے کفر کا بھیانک اور بدنما چہرہ بھی دنیا کے سامنے عیاں کر دیا ہے، کتوں اور بلیوں کے زخمی ہونے پر آنسو بہانے والی غیرمسلم اقوام لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں،بلکہ انہی ممالک کے حکمران اسرائیل کو اسلحہ و بارود فراہم کر کے مسلم دشمنی کا کھلے لفظوں میں عملی اظہار کر رہے ہیں۔ انگریزوں کے ذہنی غلام اور مسلم حکمران اونٹ کی ٹانگ کٹنے پر آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں لیکن اِس وقت وہ بھی اہل غزہ کی چیخ و پکار سے بے خبر ہوکر سکون کی نیند سو رہے ہیں۔اقوام متحدہ طاغوتی قوتوں کے سامنے طوائف کا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے، جس طرح طوائف پیسوں کے سامنے ڈھیر ہو جاتی ہے اسی طرح اقوام متحدہ بھی صیہونی استعمار کی لونڈی اور طوائف بن کر رقص کناں ہے۔تاریخ عالم ہر ظلم و جبر کو اپنے سینے میں محفوظ کر لیتی ہے اور آنے والی نسلوں تک ہر سچ منتقل کر دیتی ہے۔ ارباب حل وعقد کی بے حسی و بے ضمیری بھی تاریخ کے اوراق میں نقش ہو چکی ہے۔ آئندہ نسلیں یہ سنیں گی کہ غزہ کے مسلمانوں پر آگ وآہن کی برسات ہوتی رہی، لیکن مسلم ممالک کے بے حس حکمران اندھے بہرے اور گونگے بنے سکون کی نیند سوتے رہے۔نہ انہیں غزہ کے مسلمانوں پر گرتے ہوئے میزائل اور آگ برساتے ٹینک دکھائی دیے، نہ ہی اہل غزہ کی آہیں اور سسکیاں سنائی دیں اور نہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے کوئی کلمہ خیر کہہ سکے، انہیں بس اپنا اقتدار، کرسی، مفادات اور عیش و عشرت ہی عزیز تھا، قوم مسلم کی کوئی فکر نہ تھی۔ مورخ یہ لکھے گا کہ غزہ کے نہتے اور مظلوم مسلمان بھوک اور پیاس کی شدت سے بے بسی کی تصویر بنے تھے، لیکن مصر،اردن اور شام کے راستے ان پر دانستہ بند کر دیئے گئے، دریائے نیل اور فرات کا پانی بہتا رہا، مگر پڑوس میں غزہ کے مسلمانوں کو روزہ افطار کے لئے بھی کربلا کی طرح دو بوند پانی میسر نہ تھا، غزہ میں روزانہ سینکڑوں لاشے تڑپتے دیکھ کر بھی اسلامی حکمران میوزیکل کنسرٹس میں مصروف رہے۔ مسلم ممالک کے ٹینک، اسلحہ، بارود، میزائل،طیارے اور تربیت یافتہ افواج میں سے ایک سپاہی بھی غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کو نہ جا سکا، غزہ کے قبرستان چھلنی جسموں اور بریدہ لاشوں سے آباد ہوتے رہے،لیکن ان کے مسلمان بھائی اپنے گرد و پیش سے بے خبر کرکٹ،رقص و سرور،جشن بہاراں اور نئے سال کے جشن کی محفلوں میں مصروف رہے۔اے ارض و سما کے مالک، ابابیلوں سے کعبہ کی حفاظت فرمانے والے رب، بدر و احد میں فرشتوں سے مدد فرمانے والے اللہ، اپنے محبوب کریم ؐ کی اُمت کے لئے آسمان سے ہی مدد نازل فرما،اہل غزہ اور حماس مجاہدین کی غیب سے مدد فرما،جو القدس کی حفاظت کے لئے پوری اُمت کا قرض چکا رہے ہیں انہیں فتح یاب فرما۔تاریخ لکھی جائے گی کہ مصر کے پاس دریائے نیل تھا اور غزہ کے مسلمان پیاس سے مر گئے۔تاریخ لکھی جائے گی کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے پاس تیل کے سمندر تھے، جبکہ غزہ کے ہسپتالوں اور ایمبولینس کے لئے ایک قطرہ ایندھن بھی نہیں تھا۔تاریخ لکھی جائے گی کہ مسلمانوں کے پاس 50 لاکھ سے زائد فوجی تھے، جنگی جہاز میزائل بھی تھے، مگر وہ نہ کوئی فوجی غزہ بھیج سکے اور نہ غزہ میں قتل عام اور نسل کشی کو روک سکے۔تاریخ لکھی جائے گی کہ سعودی عرب نے اربوں ڈالر ناچ گانے کی پارٹیوں پر لٹا دئیے، لیکن غزہ میں روٹی پانی بھی میسر نہیں تھا۔تاریخ لکھی جائے گی کہ ایران اور ترکی نے اسلام کا نام تو بہت استعمال کیا، لیکن غزہ کے قتل عام کو روکنے کے لئے ایک قدم بھی نہیں اُٹھایا،جبکہ مسلمانوں کے قتل عام میں حصہ بہت ڈالا۔تاریخ لکھی جائے گی کہ مسلمان ا قوام اپنے حکمرانوں کو تو مورد الزام ٹھہراتی رہی، لیکن پیپسی، کوک، سپرائٹ پینا چھوڑ سکی، نہ میکڈونلڈ اور کے ایف سی (KFC)  کے برگر کھانا چھوڑ سکی اور نہ ہی یہود و نصاریٰ کی مصنوعات کی خرید و فروخت چھوڑ سکی۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -