سماج کی موت

سماج کی موت
سماج کی موت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


دل کے ہسپتال پر وکلاء کا حملہ محض ایک واقعہ نہیں، محض ایک مجرمانہ فعل نہیں، محض ایک درندگی نہیں،بلکہ حقیقی معنوں میں یہ ہمارے سماج کی موت ہے۔ جی ہاں! ہمارا پورا سماج،پورا معاشرہ اپنی موت مر چکا ہے۔ معلوم نہیں ہم کب تک اس کی لاش کو اپنے سینے سے چمٹائے رکھیں گے۔ ہم بھی عجیب لوگ ہیں، برسوں سے اپنی سماجی لاش کو سروں پر اٹھائے پھر رہے ہیں، لیکن کہیں کوئی ماتم برپا ہے، نہ بین اٹھ رہے ہیں۔ کیا یہ وکلاء اسرائیلی تھے یا بھارتی باشندے تھے؟ یقینا وہ سب کے سب پاکستانی تھے، ”بظاہر“ تعلیم یافتہ بھی تھے، انہیں معلوم بھی تھا کہ وہ جہاں حملہ کرنے جارہے ہیں، وہاں دل کے مریض ہیں اور اس حملے کے نتیجے میں وہاں سب کچھ درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ سسکتے مریض موت کے منہ میں چلے جائیں گے اور ایسا ہی ہوا، لیکن ہمارے سماج کے اس بظاہر ”باشعور“ طبقے نے جس ”درندگی“ کا مظاہرہ کیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ دوسری طرف ڈاکٹر حضرات بھی پڑھے لکھے طبقے میں شمار کئے جاتے ہیں،

لیکن ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے ایک سابق عہدیدار کا یہ ایک پرانا بیان فرعونیت کی ایک بدبو دار مثال ہے، جو انہوں نے ایک بار اپنی ایک ہڑتال کے حق میں دیا تھا، جس میں وہ صاحب فرما رہے تھے کہ ہم بتانا چاہتے ہیں کہ اگر ڈاکٹر جان بچا سکتے ہیں تو جان لے بھی سکتے ہیں۔ مَیں ڈاکٹر صاحب کے اس بیان کی روشنی میں پھر یہی سوال خود سے پوچھتا ہوں کہ کیا اس قسم کی فرعونیت والے لہجے میں بولنے والے ڈاکٹر راہنما ہماری ہی سوسائٹی کا حصہ نہیں؟ یقیناً ہم سب پاکستانیوں کے رشتہ داروں میں کچھ وکیل حضرات بھی ہوتے ہیں، کچھ ڈاکٹرز، ٹیچر، پولیس والے اور صحافی بھی ہوتے ہیں تو پھر ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ صرف فلاں طبقہ غنڈہ گردی کر رہا ہے، یقیناً ڈاکٹر، وکلاء، صحافی اور پولیس ملازمین سب اسی سماج کی اکائیاں ہیں اور جب یہ اکائیاں بے حس ہو جائیں تو پورا سماج مردہ ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے راقم اس واقعہ کو سماج کی موت قرار دے رہا ہے……ایک عام پاکستانی ہونے کے ناتے یہاں مَیں اپنی معزز عدالتوں، حکومت اور انتظامیہ سے چند سوالات کرنے کی جسارت کر رہا ہوں!


1۔جب اس درندگی سے کئی گھنٹے قبل ایک خاتون وکیل رہنما وکلاء کے اجلاس میں وکیلوں کا لہو گرما رہی تھی کہ ”شرم کرو! اپنی عزت کی حفاظت کی خاطر ڈاکٹروں کو سبق سکھاؤ،مارو یا مر جاؤ“ ……تو اس وقت ہماری خفیہ ایجنسیاں اور پولیس کہاں تھی، بروقت ایکشن لے کر وکیلوں کو پی آئی سی کی طرف مارچ کرنے سے کیوں نہیں روکا گیا؟
2۔وکلاء وہاں سے پیدل پی آئی سی پہنچے، راستے میں ویڈیو بناتے، نعرے لگاتے رہے کہ ہم گھس کر ڈاکٹروں کو ماریں گے، لیکن پھر بھی پولیس نے ان کوکیوں نہیں روکا؟
3۔وکلاء کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے پی آئی سی کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے اقدامات کیوں نہیں کئے گئے؟جبکہ ایوان عدل سے پی آئی سی تک پہنچنے میں وکلاء کے جتھے کو تقریبا ایک گھنٹہ لگا۔
4۔اس خاتون وکیل رہنما سمیت ان وکلاء پر پاکستان کریمینل کوڈ کے سیکشن 109 اور 120 کے تحت تشدد پر اکسانے کے جرم میں ملوث ہونے پر اب تک کیا کارروائی ہوئی۔ یاد رہے کہ تشدد پر اکسانے کے نتیجے میں جو جرم ہوتا ہے، وہی سزا اس اکسانے والے شخص کو ملتی ہے جو اس جرم کے مرتکب کو ملتی ہے، چاہے تشدد پر اکسانے والا عملی طور پر اس جرم میں ملوث نہ بھی ہو۔ اس اعتبار سے خاتون وکیل سمیت تشدد پر اکسانے والے تمام وکلاء پر قتل کے مقدمے کیوں نہیں بننے چاہئیں؟ یاد رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کا مقدمہ 109 کے تحت ہی بنایا گیا تھا اور بالآخر ان کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔


5۔جب چند روز قبل ڈاکٹروں اور وکلاء کے درمیان مصالحت ہو چکی تھی تو پھر اس چنگاری کو بھڑکانے میں کون اور کیوں ملوث ہوا؟
6۔یہ سوال نہایت ادب و احترام سے اپنے نیک دل چیف جسٹس صاحب سے ہے کہ حضور! آپ نے کچھ روز قبل فرمایا تھا کہ عدالتیں کسی طاقت ور سے ڈرے بغیر فیصلے کر رہی ہیں۔ عدالتوں نے سابقہ اور حاضر سروس وزیراعظم کے خلاف بھی فیصلے دیئے۔ حضور! آپ کی یہ بات سر آنکھوں پر،لیکن کیا آپ پی آئی سی واقعہ میں ملوث نہایت طاقت ور بار مافیا کو بھی قرار واقعی سزا دیں گے یا ماضی کی طرح طاقت ور گروہوں کے درمیان ہر تنازع کے بعد ہونے والی یا کروا دی جانے والی صلح پر ہی اس مقدمے کا بھی اختتام ہو جائے گا، کیا صلح کے بجائے انصاف ہوتا نظر آئے گا؟


7۔یہ سوال ہماری نہایت ہی قابل پولیس سے ہے کہ مہذب معاشروں میں تو ہسپتالوں کے قریب کے علاقے کو سائلینس زون قرار دیا جاتا ہے، حتی الامکان کوشش کی جاتی ہے کہ وہاں بلاوجہ رش نہ ہو، شور شرابا نہ ہو…… پہلے تو آپ خاموشی سے وکلاء کے جلوس کو پی آئی سی تک پہنچتے دیکھتے رہے،پھر جب ہسپتال پر حملہ ہو گیا تو آپ نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ آنسو گیس کا استعمال دل کے مریضوں کے لئے کس قدر مہلک ثابت ہو سکتا ہے،آپ نے آنسو گیس کے شیل پھینک کر وکلاء کو بھگانے کی کوشش کی،کیا ان وکلاء کو ہسپتال سے کافی دور نہیں روکا جا سکتا تھا؟ آنسو گیس کے شیل سے مریضوں پر جو قیامت گزری، وہ رقم بھی نہیں ہو سکتی۔
راقم کے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ سماج کو مکمل تباہی سے بچانے کے لئے کچھ سخت فیصلے کئے جائیں۔

حکومت اور عدالت اب فیصلہ کرے کہ ججوں پر حملہ کرنے والے، آئے روز ہرٹال کرنے والے، سائلین سے پیسہ بٹورنے کی خاطر مقدمات کو لٹکانے والے، ہسپتالوں پر حملے کرنے والے وکلاء ہوں یا مرض کے ہاتھوں سسکتے تڑپتے مریضوں کا علاج کرنے کے بجائے آئے دن ہڑتال پر جانے والے نام نہاد مسیحا ہوں، ان سب کو کڑی سے کڑی سزا دے کر عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہسپتال پر حملے میں ملوث افراد کا مقدمہ ملٹری کورٹس میں چلایا جائے اور سات روز کے اندر اندر فیصلہ کرکے اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے، ورنہ آئیے ہم سب آج یہ اعلان کر دیں کہ ہمارا سماج مر چکا ہے، ہم زندہ لاشیں ہیں اور لاشیں کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتیں۔

مزید :

رائے -کالم -