سانحہ اے پی ایس، دہشت گردی کا مکمل صفایا قومی مشن
سانحہ آرمی پبلک سکول کو نو سال بیت گئے لیکن آج بھی یوں لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔ ابھی تک چھلنی دلوں کو قرار نہیں ملا اور کیسے ملتا کہ یہ تو زندگی بھر کا گھاؤ ہے جو ہر 16 دسمبر کو پھر سے ہرا ہو جائے گا۔ اس اندوہناک سانحے نے نہ صرف ان بچوں کے والدین کوگھائل کر رکھا ہے بلکہ ہر پاکستانی کو خون کے آنسورلایا ہے۔ اس الم ناک اور غم ناک سانحے نے پاکستانی قوم کے دل چھلنی چھلنی کردیئے ہیں۔
پشاور کاآرمی پبلک اسکول ایک بھیانک دہشت گردانہ کارروائی کا نشانہ بنا۔ عرب،ازبک اور افغان دہشت گردوں کے ایک گروپ نے اسکول پر حملہ کیا۔ 150 سے زائد افراد خون میں نہا گئے، جن میں اسکول کے 145 معصوم بچے بھی شامل تھے۔ اس بھیانک واردات نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ مطالبہ شدت سے ابھرا کہ دہشت گردی کا مکمل قلع قمع کرنے کے لئے جامع حکمت عملی بنائی جائے۔ حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا۔ اتفاق رائے سے ایک بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی گئی۔
سانحہ اے پی ایس کے بعد بلاشبہ دہشت گردی کے پس پردہ محرکات کا مکمل تدارک آج ہمارے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے کیونکہ بھارت اور افغانستان کی شہ پر دہشت گرد آج بھی اس ارض وطن پر اپنے اہداف تک پہنچ کر دہشت گردی کی گھناؤنی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ پاک افواج اپنی جان پر کھیل کر دہشت گردوں کا پاتال تک تعاقب کررہی ہیں۔ خوش قسمتی سے دفاع وطن اور ملکی و قومی مفادات کے تحفظ کیلئے تمام ریاستی ادارے بشمول سول اور عسکری قیادتیں ایک پیج پر ہیں اس لئے قوم کو بھارت کے مذموم عزائم کو بے اثر اور ختم کرنے کی توقع ہے جس کے باعث مادر وطن دہشت گرد کے وجود سے جلد پاک ہوتا نظر آتا ہے۔
اگر اندرون ملک نیشنل ایکشن پلان کے مطابق دہشت گردوں کے سہولت کاروں پر کڑا ہاتھ ڈالا گیا ہوتا تو دہشت گردوں کی اکا دکا کارروائیاں بھی ختم ہو چکی ہوتیں۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور سرپرستوں کا احتساب بھی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے۔ اس سلسلہ میں دہشت گردوں کی اندرونی و بیرونی فنڈنگ کی بندش اور پشت پناہی کا خاتمہ بھی ضروری ہے، اس سے بھی زیادہ ضروری ملک میں موجود انکے سہولت کاروں پر آہنی ہاتھ ڈالنا ہے جس کیلئے افواج پاکستان سرگرم ہیں۔
وطن عزیز کو دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں سے پاک کرنے کیلئے آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا۔ یہ آپریشن بڑی حد تک کامیاب رہا۔ دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑ دیا گیا۔ انکی پناہ گاہیں اور تربیت گاہیں ختم کر دی گئیں۔ سینکڑوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ کچھ سرحد پار کر کے افغانستان میں پناہ گزین ہو گئے۔ دہشت گردی کی کارروائیوں میں نمایاں طور پر کمی آنے لگی۔
16 دسمبر ہمیں آرمی پبلک سکول کے بچوں کی قربانی یاد دلاتا ہے۔ ہمارا عزم پختہ اور جذبے سچے ہیں۔ ابھی دہشت گردی کیخلاف جنگ جاری ہے۔ پاکستانی قوم یہ جنگ جیتے گی۔ ہمیں اتحاد، استحکام اور یکسوئی کو قائم رکھنا ہے۔ یہ جنگ ہم نے اپنی اگلی نسل کیلئے جیتنی ہے۔ دشمن ہماری صفوں میں انتشار سے فائدہ اٹھائے گا۔ ہمارا عزم پختہ اور جذبے سچے ہیں۔پاکستانی قوم یہ جنگ جیتے گی۔
دشمن نفرت اور انتہا پسندی چاہتے ہیں لیکن ہم برداشت کو فروغ دے کر ان کا جواب دیں گے۔ ہم علم دشمنوں کو کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ آرمی پبلک اسکول کے شہید بچوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر جہالت کا مقابلہ کیا اور روشن خیال کی بنیاد رکھی، شہدا کی یادیں مادر وطن کی بقا کے ساتھ جڑی ہیں اور شہدا کی یادوں کو وطن کی بقا سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔
قوم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وہ قیمت ادا کی جس کا کوئی تخمینہ نہیں لگا سکتا۔ دنیا کی اس جنگ کی سب سے بھاری قیمت ہماری افواج، سپاہیوں اور نہتے شہریوں نے ادا کی۔ پاکستان نے ہزاروں جانوں کی قربانی دی اور بے انتہا معاشی نقصانات اٹھائے۔ اگر کوئی موردِ الزام ٹھہراتا ہے تو ان کو واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ نقصانات کے باوجود ہم ملکی، علاقائی اور عالمی امن کیلئے پرعزم ہیں۔ 16 دسمبر کا دن ہمیں اس سیاہ دن کی یاد دلاتا ہے جس روز معصوم جانوں کی شہادت کے واقعے نے پوری قوم کو غم میں مبتلا کیا اور معصوم بچوں کی شہادت نے قوم میں دہشت گردی کے خلاف وحدت کو جنم دیا۔
افواجِ پاکستان اور دیگر اداروں نے دہشت گردی کیخلاف فیصلہ کن معرکہ سرانجام دیا اور دہشت گردی کے خلاف آپریشن ردالفساد اور ضرب عضب جیسی مثال نہیں ملتی۔ سانحہ اے پی ایس پشاور میں بچھڑ جانے والوں کی یاد ہمیشہ موجود رہے گی۔ شہیدوں کو خراجِ عقیدت اور شہدا کے غمزدہ والدین سے دِلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ پاکستان کو ایسا معاشرہ بنائیں گے جہاں فرقہ واریت، مذہب و لسانیت کی تفریق نہیں ہوگی۔ ملک میں کسی بھی طرز پر انتہا پسندی اور تشدد کو برداشت نہیں کیا جائیگا۔