بھٹو کے آخری ایّام , پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں . . . قسط نمبر 5
سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود بھٹو صاحب کو ممکنہ سہولتیں فرہم کی گئی تھیں۔ یہ سہولتیں درجۂ اوّل کے قیدیوں کو دی جا نے والی سہولتوں سے بھی کہیں زیادہ تھیں۔ یہاں ان میں سے چند ایک سہولتوں کا بیان نامناسب ناہو گا۔
رہائش۔ بھٹو صاحب کو چھ کوٹھڑیوں پر مشتمل ایک الگ تھلگ عمارت میں رکھا گیا تھاجس میں ایک صحن بھی موجود تھا۔ (خواتین کے وارڈ کی شمالی دو کوٹھڑیاں ایک مضبوط دیوار بنا کرالگ کر دی گئی تھیں) ایک کوٹھڑی کے بجائے بھٹو صاحب کو چار متصل کوٹھڑیاں دی گئی تھیں۔
بھٹو کے آخری ایّام , پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں . . . قسط نمبر 4 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ان میں سے کسی کو بھی کا کوٹھڑی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ کوٹھڑیاں صاف ستھری‘ روشن اور ہوادار تھیں۔ چار کوٹھڑیوں پر مشتمل یہ مختصر سی رہائش گاہ یوں ترتیب دہ ی گئی تھی۔
1۔ سونے کا کمرہ: یہ تقریباً1223571/2 فٹ کا کمرہ تھااور دور کونے میں ہونے کی وجہ سے دوسرے کمروں کی نسبت اس میں خلوت ( Privacy ) کا اہتمام زیادہ تھا۔ چاروں کے چاروں کمروں میں لوہے کی موٹی سلاخوں والے دروازے نصب تھے‘ جن میں باہر سے تالا لگایا جاسکتا تھا اور کوئی بھی ملاقاتی یا سنتری جھانک کراندر کی شے کو دیکھ سکتا تھا۔ کمروں میں تازہ گرم و سرد ہوا کے داخلے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔
ؓ2 ۔ غسل خانہ: دالان کے پار سونے کے کمرے کے بلمقابل کوٹھڑی کو غسل خانے کی صورت دے دی گئی۔ اس میں پانی کا نل بھی لگوا دیا گیا۔ غسل خانے میں لکڑ ی کا کموڈ ’فٹ بورڈ‘ تولئے لٹکانے کیلئے دو ریک‘ دو بالٹیاں‘ مگ‘ لوٹا اور دیگر ضروری اشیاء فراہم کر دی گئیں۔ سردیوں میں پانی گرم کرنے کیلئے راڈ کے علاوہ ایک ہیٹر بھی مہیا کر دیا گیا تھا۔ صفائی کیلئے ایک خاکروب بھی متعین تھا۔
3 ۔ سٹور: سونے کے کمرے سے متصل کوٹھڑی کو اسٹور اور ڈریسنگ بنا دیا گیا تھا۔ اس کمرے میں بھٹو صاحب کے کپڑے اور دیگر اشیاء رکھی جاتی تھیں۔ اسی کمرے کو وہ بطورِ ڈریسنگ روم بھی استعمال کرتے تھے اس میں ہینگرز اور الماری وغیرہ کا بھی بندوبست تھا۔
4 ۔ باورچی خانہ: سٹور اور ڈریسنگ روم کے بالمقابل دائیں طرف والے کمرے کو باورچی خانہ بنا دیا گیا تھا۔ یہ کمرہ صحن سے قریب تر تھااور دالان میں داخل ہوتے ہی دائیں طرف پہلا کمرہ تھا۔ اس میں ریفریجریٹر‘ تیل سے جلنے والا چولہا‘ ایک عدد جالی دار الماری اور دیگر اشیائے خوردونوش رکھی جاتی تھیں۔
جہاں تک سیکیورٹی کا تعلق ہے بالعموم جیل کی کا کوٹھڑیاں بجلی سے محروم رکھی جاتی تھیں تاکہ پھانسی کے مجرم بجلی کے تاروں سے خودکشی کی کوشش نہ کر سکیں لگر جس سیکیورٹی وارڈ میں بھٹو صاحب کو رکھا گیا تھا اس میں بجلی کا اچھا خاصا انتظام موجود تھا۔ ان کیلئے روشنی کے درج ذیل انتظامات تھے۔
1 ۔ ٹیبل لیمپ.......بھٹو صا حب کو پڑھنے لکھنے کی سہولت مہیا کر نے کے لئے ایک ٹیبل لیمپ دیا گیا تھا۔
2 ۔ پنکھا اور ہیٹر.......سونے کے کمرے میں ایک بجلی کا پنکھاچھت میں نصب تھا۔ اس طرح سردیوں کے دوران دو(۲)راڈ والاایک الیکٹرک ہیٹر بھی موجود رہتا تھا۔ نہانے کے کمرہ میں ایک امرشن راڈاور ایک الیکٹرک ہیٹر رکھا گیا تھا۔
3۔ بجلی.......پہلے ہی ہفتہ میں چھت کے پنکھے کے ریگولیٹر کی طرح بجلی کے سوئچ بھی اندر منتقل کر دیے گئے تھے تا کہ بھٹو صاحب حسبِ منشا بجلی استعمال کر سکیں۔ جیل کے قانون کے تحت تمام مجرموں کو ہر حالت میں بجلی یا کسی دوسری روشنی میں رہناپڑتا ہے تا کہ جیل حکام ان کی حرکات و سکنات کا ہر وقت مشاہدہ کر سکیں۔ مگر اس کے برعکس بھٹو صاحب جب چاہتے روشنی گل کرکے سو سکتے تھے۔ یہ انتظام بھٹو صاحب کی طرف سے18 سے26مئی1978ء تک کی بھوک ہڑتال کے بعد کیا گیا تھا‘ جس کا الگ تفصیل کے ساتھ ذکر ہے۔
4۔ ریفر یجر یٹر.......موسمِ گرمامیں بھٹو صاحب کو ٹھنڈے مشروبات وغیرہ کی سہولت دینے کی خاطر کچن میں ایک فریج رکھ دیا گیا تھا۔ درحقیقت یہ انتظام بھٹوصاحب کی مرضی کے بجائے انتظامی سہولت کے پیشِ نظر کیا گیا تھا۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ کھانے پینے کی ہر چیز بھٹو صاحب کو پیش کرنے سے پہلے جیل کے ڈاکٹر کوایک سرٹیفیکیٹ دینا ہوتا تھا کہ وہ اشیاء ان کیلئے موزوں خوراک ہیں اور زہر وغیرہ سے پاک ہیں۔ چنانچہ پانی‘ دودھ‘ گوشت‘ سبزی اور پھل وغیرہ کو محفوظ رکھنے کیلئے فرج کا استعمال ضروری قرار پایا تھا۔
فرنیچر اور دوسری اشیائے ضرورت ۔ عام مجرموں کو لوہے کی پٹیوں والا سخت بستر دیا جاتا ہے مگر اس کے برعکس بھٹو صاحب کو ہسپتال والااسپرنگ اور گدے دار بستر مہیا کیا گیا تھا‘ لیکن پھر بھی چند دنوں بعد انہوں نے شکایت کی کہ ان کے شانے اور کمر پر ورم آگئے ہیں اور وہ اس بستر پر سو نہیں سکتے۔ آخر کار ان کے اصرار پر اس کی جگہ انہیں نوار کا پلنگ رکھنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ کچھ دنوں بعد بے نظیر بھٹو صاحبہ فوم کا ایک گدّا لے آئیں جو تھوڑی بہت ردّو کد کے بعد انہیں دے دیا گیا تھا۔ مزید برآں دو چھوٹی میزیں‘ ایک بستر کے سرہانے کی میزاور دوسری بستر کے سامنے رکھنے کی میز اور دو سیدھا بیٹھنے والی کرسیاں بھی اس کمرے میں موجود تھیں۔ ہر چند یہ فرنیچر جیل کے قواعدوضوابط کے خلاف تھا اور اس کی وجہ سے کمرہ بھرا بھرا نظر آنے لگا تھامگر بھٹو صاحب کے آرام کی خاطر ان چیزوں کی سہولت مہیا کر دی گئی تھی۔
جیل میں عام مجرموں کو جوؤں اور کیڑوں سے بھرے ہو ئے کمبل جیل کی طرف سے دیے جاتے ہیں مگر بھٹو صاحب کو اپنا ذاتی بستر اور چادریں اور لینن وغیرہ استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ علاوہ ازیں مچھّروں سے بچنے کیلئے ایک عدد مچھّر دانی بھی مہیا کر دیی گئی تھی۔
جیل کے لباس کے بجائے بھٹو صاحب کو اپنا ذاتی لباس پہننے کی آزادی تھی عموماًوہ عوامی کرتا شلوار زیب تن کئے رکھتے اور پاؤں میں پشاوری چپل استعمال کیا کرتے تھے۔ اسی طرح جیل کے قواعد کے برخلاف انہیں شیو کرنے کیلئے بلیڈ وغیرہ رکھنے کی بھی اجازت تھی اور وہ نہانے دھونے کیلئے اپنی مرضی سے اپنا ذاتی سامان استعمال کیا کرتے تھے۔ وہ اپنی کوٹھڑی میں دوائیں وغیرہ بھی رکھ سکتے تھے لیکن ان دواؤں کی جانچ پڑتال ہوتی رہتی تھی کہ کہیں ان میں کوئی جان لیوا دوا نہ ہو۔(جاری ہے )
کمپوزر: طارق عباس