بھٹو کے آخری ایّام , پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں . . . قسط نمبر 4
سب مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر‘ بریگیڈئیر ایم ممتاز ملک نے14مئی1978ء کو مجھے طلب کیا اور بھٹو صاحب کی آمد پر کئے جا نے والے انتظامات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو صاحب کی آمد بے وقت ہو گی۔ کوٹ لکھپت جیل لاہور سے انہیں ہوائی جہاز یا ہیلی کاپٹر یا گاڑی میں لایا جائے گا۔ انہیں پی اے ایف بیس چکلالہ‘ آرمی ایوی ایشن بیس دھمیال یا سہالہ ریسٹ ہاؤس میں سے کسی ایک جگہ اتارا جاسکتا ہے۔
بھٹو کے آخری ایّام , پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں . . . قسط نمبر 3 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہم نے مختلف احوال و مقالات کیلئے مختلف کوڈورڈ مقرر کئے اور آمد کے موقع پرضروری حفاظتی اقدامات پر تبادلۂ خیال کیا۔ طے پایا کہ آمد کے مقام سے سنٹرل جیل راولپنڈی تک محفوظ سفر کی ذمہ داری ایس ایس پی راولپنڈی کی ہو گی مگر اس کے باوجود مجھ پر حفاظت کی اضافی ذمہ داریا ں عائد کی گئیں۔ چنانچہ میں نے اس سلسلہ میں ضروری اقدامات کیلئے اپنے ایڈجو ٹنٹ کیپٹن وقار احمد راجہ کو اعتماد میں لیااور اپنی پلٹن کے پہلے آدمی کو اس تمام حفاظتی حصار کے پس منظر سے آگاہ کیا۔
16مئی1978ء کی رات کو تقریباً گیارہ بجے ٹیلیفون کی گھنٹی بجنے سے میں بیدار ہوا۔ بریگیڈئیر ممتاز ملک نے فون پر مجھے ہدایات دیں کہ میں اگلی صبح5 بجے ’’ساؤتھ انڈ سے صوفہ سیٹ‘‘ وصول کر لوں۔ میں نے فوراً کیپٹن وقار کو فون کے ذریعے اطلاع دی کہ وہ صبح سویرے پانچ بجے سے مناسب وقت پیشتر اپنی پارٹی کو لے کر ’’صوفہ سیٹ‘‘ وصول کرنے ساؤ تھ انڈ پہنچ جائیں اور بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہدایات پر عمل کریں۔ انہوں نے آگے اپنے ماتحتوں کو ایسی ہی ہدایات دی ہو ں گی‘ اور جیسا کہ فوج کادستور ہے وقت سے پہلے مجوزہ اقدامات کیلئے تیاریاں زورشور سے شروع ہو گئی ہوں گی۔ مگر تیار ہونے والوں کواس بات کاقطعاً کوئی علم نہیں تھاکہ یہ سب تیاری کس مقصد کیلئے ہو رہی ہے۔
صبح دھمیال ایئر بیس جاتے وقت میں نے راستے میں پولیس کے حفاظتی انتظامات کو بھی چپکے چپکے جانچ لیا۔ پانچ بجنے سے پندرہ بیس منٹ پہلے میں دھمیال ایئربیس پر پہنچااور دیکھا کہ وہاں کیپٹن وقار کی پارٹی پوری طرح چوکس اور مستعد ہے۔ سگنل کے سازو سامان سے مواصلات کے نظام سمیت تمام ضروری حفاظتی انتظامات کر لئے گئے تھے۔ میں نے دور ایک طرف دیکھا کہ ڈائریکٹر جنرل آرمی انٹیلی جنس بھی صبح کی سیر کے لباس میں گھوم رہے ہیں۔
آرمی ہیلی کاپٹرپانچ بج کر پانچ منٹ پر اترااور دروازہ کھلنے پربھٹو صاحب ایک پولیس افسر کی معیت میں ہیلی کاپٹر سے باہر آئے۔ انہوں نے نیلے رنگ کا سوٹ زیب تن کررکھا تھااور قدرے کمزوری کے باوجود بہت سمارٹ نظر آ رہے تھے۔ قیدیوں کی ایک بڑی گاڑی ہیلی کاپٹر کے قریب آئی اور بھٹو صاحب کو اس میں سوار ہونے کو کہا گیا۔ یہ دیکھ کر وہ بہت غضبناک ہوئے۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس پر وہ یوں گرجے جیسے وہ ابھی تک ملک کے سربراہ ہوں۔ انہوں نے پولیس افسر سے کہا ’’تمہیں شرم آنی چاہئے۔ کیااس سے بہتر گاڑی کا بندوبست نہیں ہو سکتا تھا ؟‘‘
اس طرح خفگی کا اظہار کرنے کے بعد وہ قیدی گاڑی میں سوار ہو گئے۔ اسی دوران جلدی سے نزدیک والے دفتر سے ان کے بیٹھنے کیلئے ایک کرسی لا کر رکھ دی گئی کیونکہ اس گاڑی میں صرف لکڑی کے بنچ ہی لگے ہوئے تھے۔ ان کو بیٹھتے ہی گاڑی بند کر دی گئی۔
مجھے بعد میں پتا چلا کہ بھٹو صاحب اس ناروا سلوک پر نہایت برہمی سے پولیس کو کوستے رہے۔ انہوں نے کہا ’’ ایسا سلوک تو جرمنوں نے یہودیوں کے ساتھ بھی نہیں کیا تھا‘‘۔ وہ بار بار اس بات پر ناراض ہوتے رہے کہ پولیس اپنے لیڈر سے‘ جو انہی کا نہیں بلکہ تمام تیسری دنیا کا لیڈر بھی ہے‘ سخت ناروا سلوک کر رہی ہے۔
صبح تڑکے ہی یہ گاڑی راولپنڈی جیل میں داخل ہو گئی او راتنے سویرے کسی کو بھی پتا نہ چلاکہ سڑک پر کیا ہو رہاہے۔ گاڑی کے اندر داخل ہوتے اور جیل کا دروازہ بند ہوتے ہی بھٹو صاحب کو سیکیورٹی وارڈ میں لے جایا گیا۔ سپرنٹنڈنٹ جیل چو دھری یار محمد کوبھٹو صاحب کو سیدھا کوٹھڑی میں لے جانا تھا لیکن جونہی وہ سیکیورٹی وارڈکے صحن میں پہنچے تو بھٹو صاحب وہاں کھڑے ہو گئے اور لکھپت جیل کے سپرنٹنڈنٹ‘ جو بھٹو صاحب کے ہمراہ وہاں سے آئے تھے‘ باہر کرسیاں منگوا کر بیٹھ گئے اور چائے نوش کی۔ بھٹو صاحب جیل میں قیدیوں کی گاڑی سے جونہی باہر آئے تو انہوں نے سیکیورٹی وارڈ کے اردگرد خاردار تاروں کے ڈھیر اور نگرانی مینار اور پھر صحن میں بیٹھتے ہوئے فوجی ٹیلیفون اور باقی دفاعی انتظامات کا غور سے مشاہدہ کیا۔ اتنے میں حکاّمِ بالانے دریافت کیاکہ آیا بھٹو صاحب کوسیکیورٹی وارڈ کی مخصوص کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا ہے یا نہیں؟ اس پر سپرنٹنڈنٹ جیل کو اپنے فرائض کا احساس دلایا گیا۔ ہر چند بھٹو صاحب صحن میں مزید کچھ دیر بیٹھنا چاہتے تھے مگر وہ انہیں کوٹھڑی میں لے گیا۔
اسی دن یعنی17مئی1978ء صبح دس بجے بھٹو صاحب نے سپرنٹنڈنٹ جیل کو اپنی کوٹھڑی میں بلوایا اور ان سے دالان( Corridor ) میں رکھے ہوئے فوجی ٹیلیفون‘ الارم سسٹم کی گھنٹیوں‘ جیل وارڈ‘ جو ان کی کوٹھڑی پردالان میں بطورِ سنتری کھڑا تھا‘ غسل خانے کے دروازے پر عام کھدّر کے کپڑے کے پردے اور بجلی کے سوئچ اپنی کوٹھڑی کے بجائے باہر دالان میں ہونے پر سخت اعتراض کیا اور مطالبہ کیا کہ ان اعتراضات پر فوراً عمل ہونا چاہئے۔ شاید بھٹو صاحب کو فوجی ٹیلیفون اور الارم سسٹم کی گھنٹیوں سے یہ محسوس ہوا ان میں خاص قسم کے آلات رکھے گئے ہو ں گے تا کہ ان کے ساتھ کی گئی ہر قسم کی بات چیت سنی جا سکے۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ ان پر کوئی سنتری پہرہ دے۔ غسل خانے پر یا تو صحیح دروازہ ہو یا کم ازکم چق پر گہرے رنگ کا کپڑا لگا ہو‘ تاکہ پردے کا پورا انتظام ہو۔ وہ چاہتے تھے کہ روشنی اوربجلی کے پنکھے کے سوئچ ان کے سیل کے اندر ہوں تا کہ وہ اپنی مرضی سے انہیں استعمال کر سکیں۔(جاری ہے )
کمپوزر: طارق عباس