داؤد طاہر کی ست رنگ خود نوشت

خود نوشت یا سوانح عمری لکھنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے،جس طرح شاعروں کی کلیات ہوتی ہے اسی طرح کی نثرنگار کی زندگی کا اثاثہ اُس کی خود نوشت ہوتی ہے۔ جوش ملیح آبادی کی ”یادوں کی بارات“ اور قدرت اللہ شہاب کی ”شہاب نامہ“ اب ایک کلاسک کا درجہ حاصل کر چکی ہیں۔خود نوشت میں جتنا سچ لکھا جائے گا وہ اتنی ہی مقبول بھی ہو گی، معتبر زندگی میں گزرتے ہیں مگر وہ اپنی زندگی کو بیان نہیں کر سکتے۔یہ صلاحیت لکھنے والوں کے حصے میں آتی ہے کہ وہ عمر بھر کے شب و روز کو ازسرِ نو دریافت کر کے انہیں صفحہ قرطاس پر اتارتے ہیں،میرا نہیں خیال کہ کوئی لکھاری پہلے دن سے ڈائری قلم سنبھال کے اپنے لمحاتِ زیست کو محفوظ کرنا شروع کر دیتا ہے۔یہ عقدہ تو اُس پر اُس کھلتا ہے جب وہ اپنی شناخت بنا لیتا ہے کہ اُسے اپنے ماہ و سال کی روداد لکھنی چاہئے۔
داؤد طاہر بھی ایک ایسے ہی خوش نصیب ہیں حال ہی میں اُن کی ایک ہزار صفحات پر مشمل خود نوشت سوانح عمری ”جو بیت گیا ہے وہ“ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔اتنی ضخیم کتاب کو سوچنا اور لکھنا کوئی معمولی بات نہیں اور لکھنا بھی وہ جو تاریخ میں محفوظ ہو چکا ہے اور دوسروں کی امانت بھی ہے۔داؤد طاہر ایک زرخیز ذہین کے مالک لکھاری ہیں۔یہ یادداشتیں اُن کی56سالہ اُس زندگی کا خزانہ ہیں جو انہوں نے شعور و فکر کی آنکھ کے ساتھ گزاری، وہ 80 سال کی عمر کے جوان رعنا ہیں،گویا عمرِ حیات کی آٹھ دہائیوں میں سے انہوں نے ساڑھے پانچ عملی زندگی کے طور پر گزاری ہیں اس عرصے میں انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔وہ سرکاری افسر رہے،سیاحت کی، تاریخ و تہذیب کے چھپے گوشے دریافت کرتے رہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ انہوں نے زندگی کی ہما ہمی میں اپنے اندر کے وجدان،لکھاری اور تدبر و مفکر شخص کو مرنے نہیں دیا۔وہ بھی غالباً قدرت اللہ شہاب کے اُسی نظریے پر یقین رکھتے ہیں کہ عہدے،اختیارات اور جاہ و منصب سب ختم ہو جائیں گے باقی صرف وہ رہے گا جو کسی انسان نے لفظوں اور خیالات کی صورت میں اپنے ورثے کے طور پر چھوڑا۔ داؤد طاہر کی دس کتابیں شائع ہو چکی ہیں،چھ کتابیں تو سفر نامے ہیں،جو انہوں نے اپنے تخلیقی سفر کے آغاز پر لکھنا شروع کئے،جس زمانے میں اُن کا پہلا سفر نامہ”شوق ہمسفر میرا“ شائع ہوا، وہ غالباً ملتان میں تعینات تھے۔ اس سفرنامے نے دھوم مچا دی۔ اُن کے اسلوب اور رودادِ سفر کی چاشنی نے اہل ادب کو بہت متاثر کیا۔اُن کا دوسرا جوہر اُس وقت کھلا جب انہوں نے تاریخ کے شناور کی حیثیت سے اپنی رونمائی کرائی۔اُن کی ملتان کے بارے میں کتاب ”ارمغان ملتان“ تاریخ و تہذیب ملتان پر ایک بڑا حوالہ بن گئی۔اُن کی2015ء میں ”قریہئ جان“ کے نام سے ایک کتاب شائع ہوئی جو یاد داشتوں پر مبنی ہے تاہم اُس کتاب کو بنیاد بنا کر انہوں نے اپنی خود نوشت لکھنے کا آغاز کیا جو چار برسوں میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ داؤد طاہر نے اپنی خود نوشت کو ایک ترتیب کے ساتھ آگے بڑھایا ہے یہ نہیں کیا کہ زندگی کے احوال کو آگے پیچھے کر دیا ہو، بلکہ جس ترتیب سے وہ اُن کی زندگی میں آئے اُسی ترتیب سے انہوں نے قلمبند کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ قاری جب ایک باب سے دوسرے میں قدم ر کھتا ہے تو اُسے معلوم ہوتا ہے پہلے وہ کن واقعات سے گزر آیا ہے۔
اِس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں واقعات اور ناموں کا خیال رکھا گیا ہے بعض جزئیات اتنی باریک ہیں کہ لمبی زندگی میں ذہن سے محو ہو جاتی ہیں، مگر داؤد طاہر کے حافظے میں محفوظ رہی ہیں۔ داؤد طاہر سی ایس ایس کر کے پاکستان ٹیکسیشن سروس میں شامل ہوئے تھے۔انہوں نے اپنی کسی سچائی پر پردہ نہیں ڈالا۔ایک بڑے محکمے کا افسر ہونے کے باوجود وہ ایک عرصہ تک سکوٹر پر سواری کرتے رہے۔حتیٰ کہ ایک بار راولپنڈی سے لاہور آنا پڑا اور تو اُسی سکوٹر پر آتے،واپسی پرگوجرانوالہ میں حادثے کا شکار بھی ہو گئے۔ انہوں نے سرکاری ملازمت کے دوران ملک کے مختلف شہروں میں وقت گزارا اور ہر شہر کی یادیں لے کر لوٹے۔ آج کل وہ لاہور میں مقیم ہیں تاہم اُن کی خود نوشت میں پورا پاکستان جلوہ گر نظر آتا ہے۔اپنی ہمہ گیر زندگی میں داؤد طاہر نے سینکڑوں شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔اُن میں حاکمانِ وقت،بڑے نام والے تاجر و صنعتکار،شوبز کے مقبول فنکار،ادیب شاعر، اساتذہ غرض کوئی شعبہئ زندگی ایسا نہیں، جس سے تعلق رکھنے والی مقبول و نامور شخصیات کا اُن کی اس خود نوشت میں ذکر نہ ہو۔وہ ایک خشک اور گنتی سے تعلق رکھنے والے محکمے کے افسر تھے،اس محکمے کے اکثر لوگ معاشرے سے کٹ کر رہ جاتے ہیں لیکن داؤد طاہر کی زندگی دفتر کی چکا چوند تک محدود نہیں تھی،اس خود نوشت میں بکھرے ہوئے واقعات واضح کرتے ہیں کہ وہ اندر سے ایک زندہ دل انسان ہیں، وہ افسری کی اکڑ فوں میں مبتلا ہو کر تنہائی کا شکار ہونے کی بجائے لوگوں میں رہ کر آسودگی محسوس کرتے رہے۔ اُن کی خود نوشت میں جہاں ضیاء الحق،شوکت عزیز، سید یوسف رضا گیلانی اور بہت مقتدر شخصیات کا ذکر ملتاہے وہاں زیبا،محمد علی، نغمہ، سنگیتا، دردانہ رحمن، کتھک ڈانسر سعید احمد بٹ، ثریا ملتانیکر، مہدی حسن اور دیگر بڑے فنکاروں سے ملاقاتیں بھی اُن کی حسِ جمال کو ظاہر کرتی ہیں۔
پروین شاکر کے بارے میں انہوں نے دلچسپ معلومات فراہم کی ہیں،پہلی بار یہ انکشاف ہوا ہے کہ پروین شاکر جنرل ضیاء الحق کے بہت قریب تھیں، البتہ انہوں نے فارن سروس کی ایک سینئر افسر طلعت الطاف کے ذریعے اِس بات کو غلط قرار دیا ہے کہ پروین شاکر کے سی ایس ایس انٹرویو میں تین سو تین نمبر تھے۔انہوں نے طلعت الطاف کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ پروین شاکر کے پیپلزپارٹی کے ایک سینئر رہنما سے دوستانہ مراسم تھے۔ایک بار وہ طلعت الطاف کے ہمراہ اُن سے ملنے اُن کے گھر گئیں تو طلعت احمد کو باہر بیٹھنے کے لئے کہا۔بہت دیر بعد وہ باہر آئیں تو پیپلزپارٹی کے رہنما بھی اُن کے ساتھ تھے۔اس خود نوشت میں بہت سے واقعات ایسے ہیں،جو حیران کر دیتے ہیں تاہم داؤد طاہر نے ہر واقعہ کو اُس کے پس منظر کے ساتھ بڑے محتاط انداز میں بیان کیا ہے۔اس خود نوشت کی سب سے اہم بات اس کا اسلوب ہے۔ مصنف نے کہیں بھی اپنی تحریر کو بوجھل نہیں ہونے دیا۔ ایک سلاست اور روانی اُن کی تحریر میں ہر جگہ نظر آتی ہے۔یہ آپ بیتی تو ہے ہی تاہم اسے جگ بیتی بھی کہا جا سکتا ہے،کیونکہ اس میں نصف صدی کا ایک پورا زمانہ اپنے تمام تر تاریک وروشن پہلوؤں کے ساتھ نظر آتا ہے۔ داؤد طاہر نے بلاشبہ اس خود نوشت میں سینکڑوں واقعات اور بیسیوں شخصیات کا ذکر کیا ہے لیکن وہ کہیں بھی کسی الجھاؤ کا شکار نہیں ہوئے، یہی وجہ ہے اس کتاب کو پڑھتے ہوئے کسی پیچیدگی کا احساس نہیں ہوتا۔ داؤد طاہر نے اپنی زندگی کی تاریخ کو صفحہئ قرطاس پر منتقل کر دیا ہے اور میرے خیال میں اس خود نوشت کے ذریعے ہماری ادبی،سماجی،ثقافتی اور شخصی تاریخ مرتب ہو گئی ہے۔
٭٭٭٭٭