بنگلہ دیش میں ایک بار پھر احتجاجی مظاہرے، لیکن وجہ ایسی افسوسناک کہ آپ کو بھی رونا آجائے

بنگلہ دیش میں ایک بار پھر احتجاجی مظاہرے، لیکن وجہ ایسی افسوسناک کہ آپ کو بھی ...
بنگلہ دیش میں ایک بار پھر احتجاجی مظاہرے، لیکن وجہ ایسی افسوسناک کہ آپ کو بھی رونا آجائے
سورس: ISPR Bangladesh

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ڈھاکہ (ڈیلی پاکستان آن لائن) بنگلہ دیش میں زیادتی کا شکار ایک آٹھ سالہ بچی  زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی، جس کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاج شروع ہوگیا۔ یہ افسوسناک واقعہ 5 مارچ کی رات اور اگلی صبح کے درمیان اس وقت پیش آیا جب بچی اپنی بڑی بہن کے گھر میگورا شہر میں گئی تھی۔ اس کی ماں کی جانب سے درج کرائے گئے مقدمے کے مطابق زیادتی کا الزام اس کی بہن کے 18 سالہ شوہر پر ہے جسے اس کے والدین اور بھائی سمیت گرفتار کر لیا گیا ہے۔

بی بی سی کے مطابق  ڈاکٹرز دو بار متاثرہ بچی  کی حالت کو مستحکم کرنے میں کامیاب رہے، لیکن تیسرے دورے کے بعد دل نے کام کرنا بند کر دیا۔بچی کو 8 مارچ کو دارالحکومت ڈھاکہ کے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال (سی ایم ایچ)  میں داخل کیا گیا تھا، جہاں وہ چھ دن تک تشویشناک حالت میں رہی۔

بچی کی ماں نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، "مجھے امید تھی کہ میری بیٹی بچ جائے گی۔ اگر وہ بچ جاتی تو میں کبھی اسے اکیلے کہیں نہ جانے دیتی۔"

اس کے انتقال کے بعد فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس کی میت کو میگورا واپس لایا گیا، جہاں مقامی اسٹیڈیم میں پہنچتے ہی شدید احتجاج شروع ہوگیا۔میگورا صدر پولیس سٹیشن کے انچارج ایوب علی نے مقامی اخبار ڈیلی سٹار کو بتایا کہ حکام کو صورتحال قابو میں رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ہزاروں افراد نے میگورا میں بچی کی نماز جنازہ میں شرکت کی، جس کے بعد اسے شام  ساڑھے سات بجے سپرد خاک کر دیا گیا۔ دارالحکومت ڈھاکہ یونیورسٹی میں بھی اس کے لیے غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی، جس کے بعد طالبات نے احتجاجی ریلی نکالی اور تقاریر کیں۔ احتجاجی مظاہرین نے حکومت سے خواتین اور بچوں کی حفاظت کے قوانین میں فوری اصلاحات کا مطالبہ کیا اور زیادتی کے مقدمات میں جلد انصاف کی فراہمی پر زور دیا۔

قانونی مشیر آصف نذیر کے مطابق، اس مقدمے کی سماعت اگلے سات دنوں میں شروع ہونے کا امکان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈی این اے نمونے جمع کر لیے گئے ہیں اور پانچ دن میں رپورٹ موصول ہو جائے گی جبکہ 12 سے 13 افراد کے بیانات بھی ریکارڈ کر لیے گئے ہیں۔

بنگلہ دیش میں 2020 میں نافذ کیے گئے قانون کے تحت نابالغ بچوں کے ساتھ زیادتی کی سزا موت مقرر کی گئی ہے۔ یہ قانون اس وقت لایا گیا تھا جب ملک میں کئی ہائی پروفائل جنسی زیادتی کے واقعات رونما ہوئے، جن میں ایک 37 سالہ خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا وحشیانہ واقعہ شامل تھا۔

اس بچی کے ساتھ زیادتی کے واقعے کے محض چند دن بعد میڈیا رپورٹس میں کم و بیش اسی عمر کے مزید تین بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ آٹھ سالوں میں بنگلہ دیش میں 3438 بچوں کے ساتھ زیادتی کے مقدمات درج کیے گئے، جبکہ بہت سے کیس رپورٹ بھی نہیں ہوئے۔ ان میں سے کم از کم 539 بچے چھ سال سے کم عمر کے تھے جبکہ 933 کی عمر سات سے بارہ سال کے درمیان تھی۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ زیادہ تر واقعات میں بچوں کو ان کے جاننے والے افراد ہی جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں۔